Popular Posts

Friday, March 3, 2017

فیض اور اقبال ہی کی شاعری لوگوں کو پسند کیوں۔


فیض اور اقبال ہی لوگوں کو پسند کیوں
"میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند"
مقتدر شعراء حضرات۔
کل  کسی نے ایک اچھا سوال اُٹھایا تھا کہ کیا بات ہے کہ اقبال اور فیض عوام کے دلوں کی دھڑکن بنے جبکہ بعد میں آنے والے ناصر،شہریار،فراز وغیرہ عوام کےلئے اجنبی ہی رہے۔
اس سوال کا کوئی بھی تسلی بخش جواب اس پیج پر ابھی آیا نہیں۔اگر سبھی کوشش کریں تو مختلف زاویے سامنے آسکتے ہیں۔بعد میں ایڈمن صاحب ان کو یکجا کرکے ایک کنکلوجن کی شکل میں سامنے رکھ سکتے ہیں۔

جب میں نے اس سوال پر غور کیا تو مجھے درج ذیل اسباب دکھائی دیے۔
عوام کی اپنی زبان،اپنا محاورہ،اپنے مسائل اور اپنا محدود فہم ہوتا ہے۔جو شعراء ان کی زبان اور محاورے میں،ان کے معیار کا ادراک کرکے ان کی دکھتی رگ کو چھیڑیں وہ ان کےلئے مسیحا بنتے ہیں۔
اقبال اور فیض کا دور ایسا تھا کہ عوام گوناگوں مشکلات کے شکار تھے۔مظلومیت،جاگیردانہ چودراہٹ، غربت و افلاس وغیرہ عوام کا مقدر بن چکا تھا۔
ایسے میں اقبالؒ نے اپنے شعری کینواس پر سامراج دشمنی،اسلام سے محبت،مغربی تہذیب سے نفرت،اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کے رنگ بکھیرے۔عوام کو ان میں اپنا چارہ گر نظر آنے لگا۔اسی فارمولہ کو اپناکر فیض نے بھی نقار خانے میں قدم رکھا۔فیض نے اشتراکیوں کے ساتھ جڑ کر اپنی شاعری کو عوام کےلیے مہلام کے طور پیش کیا۔اسلام پسندی اور خودی کو چھوڈ کر فیض نے علامہ کی ہی روش باقی رکھی۔نتیجتاً فیض بھی عوام کے دلوں کی دھڑکن بنے۔

فن برائے ذندگی شاعر اور عوام کے رشتوں کےلیے دوام فراہم کرتے ہیں۔
کاشتکار شاعری میں اپنی بازگشت محسوس کرتا یے تو مولوی صاحب اپنے خطبے کی لطافت۔
بعد کے شعراء نے ادب برائے ذندگی کو محض نارہ بازی قرار دیا اور ایک الگ راہ نکالی۔اب ادب براے ادب کا راگ الاپا جانے لگا۔اس کے نتیجے میں شاعری میں مقصدیت کے بجائے تصنع،اشاریت،ابہام،اور علامتی پہلووں کا رواج عام ہونے لگا۔شعراء جدیدیت،مابعد جدیدیت،علامت نگاری کے پیرہن ذیب تن کئے سیمنار کرکرکے خوش ہوتے گئےاور اسے نئے دور سے تعبیر کرنے لگےمگر نادانستہ طور اُن کے لئے اُن کے قاری( عوام)ہر گزرتے دن کے ساتھ اجنبیت کے شکار ہوتے گئے۔اب شعراء شاعری لکھتے گئے اور شعراء سے داد لیتے رہے مگر عوام جنہں ابہام اور تصنع کے بغیر شاعری رگ جاں بن چکی تھی،اب کے اس فن سے نا آشنا ہوئے۔شاید یہی وجہ ہے کہ شہریار،ناصر،اور فراز صرف ایک مخصوص ادبی ذوق رکھنے والوں کو ہی لبھا سکتے ہیں۔
دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اقبال اور فیض کے ادوار میں کتب بینی تعلیمی اور تفریحی دونوں مقاصد کی تکمیل کرتی تھی۔لوگ ٹی وی،کمپیوٹر اور انٹر نیٹ سے محروم تھے۔فرصت کے لمحات کتابوں پر صرف کرنے والا قاری کا شاعر کے ساتھ اعلی درجے کی عقیدت ہونا معنی خیز ہے۔اب شعراء خود کتاب پڑھنے کے موڈ میں نہیں ہوتے تو عوام سے کیا گلہ کریں۔
"شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات"
طارق احمد ملک

No comments: