Popular Posts

Tuesday, March 28, 2017

نظم"داستان یہ تیری میری"

شاعر۔ریاض انزنو
تبصرہ۔ طارق احمد طارق

آج کی یہ نظم
  "داستان یہ تیری میری"
بڑی عمدہ نظم ہے۔شاعر نے اپنی بساط کے مطابق بڑے لطیف پیرایے میں ظلم کی چکی میں پستی ہوئی ایک قوم کا مرثیہ رقم کیا ہے۔

نظم کا علامتی پیرہن ہی دراصل اس بار بار دھرائی جانے والی کہانی کو کوئی نئی بات ہونے کا دعوے دار بناتاہے۔

شاعر نے خود کو الفاظ کا جوہری بناکر صنائع لفظی سے بھر پور کام لیا ہے۔

"کل سے جز تک کا سفر"

داستان۔۔۔ورق۔۔۔صفحہ۔۔۔سطر۔۔۔لفظ

عبارت۔۔۔جملہ۔۔۔حرف۔۔۔۔مد۔۔۔نقطہ۔
علامت نگاری کے ان پردوں میں شاعر نے ایک دلسوز کہانی رقم کی ہے جو درد،آہ وفغاں،قتل وغارت وغیرہ کے زینے چڑھ چڑھ کر گھٹ گھٹ کر مرنے پر اٹکتی ہے۔

یہاں سے شعری کردار الگ راہ نکالنے کی سوچتاہے۔
ہر صفحے کا درد نرالا‍ <>

                         ہر صفحہ بے عنوان
جملوں کاعنوان قیامت <>

                            جملے،فقرے،روح افزا
لفظ لفظ میں غم پوشیدہ <>

                   لفظ لفظ میں مہر و وفا ہو

شعری کردارگویااس صورتحال کا نہ ختم ہونے والا منظر دیکھ کر راہ فرار کی سوچتا ہے۔وہ کم سے کم پر اکتفا کرنے کی خو رکھتا ہے۔وہ آہستہ آہستہ ہجرت کرکے  اس جگہ اپنے ہم نواؤں کو پہنچانا چاہتا ہے جہاں انہیں کم از کم زندگی کی امان مل سکے،ہر چند کہ وہ اپنی شناخت تک کھو بیٹھیں"ایسے صحیفے کے آنگن میں جس کے صفحے بے عنواں ہوں"

نظم میں کہانی کی طرح کشمکش بھی ہے ،کلائیمکس بھی،اور آخر پرحسنِ خاتمہ بھی۔ جملہ شعری خوبیوں سے پُر یہ نظم شاعر کے امکانات کی دنیا کا عندیہ دیتی ہے۔
شاعر کو بہت بہت داد و تحسین۔

No comments: