Popular Posts

Thursday, March 23, 2017

"غزل " از ڈاکٹر شیدا حسین شیدؔا اور تبصرہ"طارق احمد طاؔرق"

غزل
شاعر۔ڈاکٹر شیدا حسین شیدؔا
تبصرہ نگار ۔طارق احمد طاؔرق

بےوفا کو نظر میں رکھتے ہیں
ٹوٹے دل کو جگر میں رکھتے ہیں

بوڈھی اماں جو ساتھ ہے اپنے
اپنی جنت کو گھر میں رکھتے ہیں

ہم کہاں مانگنے کے ہیں قائل
ہر دعا چشمِ تر میں رکھتے ہیں

سر کو جھکنے کا کام سونپا تھا
دل کو مولا کے ڈر میں رکھتے ہیں

گاؤں والوں نےدیکھنے نہ دیے
خواب سارے شہر میں رکھتے ہیں

آؤ دریائے عشق میں شیدؔا
ناو اپنی بھنور میں رکھتے ہیں

طارق احمد طارقؔ کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔

خوبصورت الفاظ خوبصورت ترتیب میں موزون کیے جائیں تو ایک شعر وجود میں آتا ہے۔
شاعرانہ سچائی ضروری نہیں سائنسی سچائی کی طرح ہمارے سامنے صف باندھے کھڑی ہو۔ شاعرانہ سچائیاں اپنے محاسن رکھتی ہیں۔
زیر بحث غزل پہلی نظر میں بہت خوبصورت اور فصیح نظر آتی ہے۔
غزل میں گرچہ ندرت خیال کا ذیادہ استعمال نہیں ہوا ہے تاہم بولتے لہجے میں اچھی مصوری کو خوبی کے ساتھ بساط بجھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔

شعر۔۱۔
بے وفا کو نظر میں رکھتے ہیں
ٹوٹے دل کو جگر میں رکھتے ہیں

پہلا مصرع  محبوب کو بے وفا کہہ کر اس پر شک کرنے  کے عمل سے شروع ہوتا ہے مگر دوسرا مصرعہ اتنا کمزور ہے کہ پورا شعری منظر بھونجال ذدہ ہوجاتا ہے۔
اگر شاعر تھوڑا ہی سوچ بچار کرتا تو یہ ایک جامع شعر بن جاتا۔
دیکھیے کیسے۔۔۔

بے وفا کو نظر میں رکھتے ہیں
ٹوٹے دل میں، جگر میں رکھتے ہیں

اب شعر کی فضا ایسی بنتی ہے کہ

بے وفائی کے باوجود  عا شق کو محبوب پر پیار آتا ہے۔وہ اسے آنکھوں میں،ٹوٹے دل میں، اور جگر میں بساکر شاد کام ہوتاہے۔

دوسراشعر "اماں" کے بجائے "بوڈھی اما ں" کہناممتا کو تھوڑا مجروح کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی ماں کے بجائے کسی بوڈھی عورت کو گھر میں پناہ دینے کا احساس دلاتاہے۔ بحرحال دوسرا مصرع شعر کے مفہوم کو مٹھاس عطا کرتا ہے۔

شعر۳۔ تیرے شعر کا برتاو بڑا پیارا ہے۔ایک طرف "کسی در کا سوالی " ہونے سے صاف انکار تو دوسری طرف بےکسی کی تصویر برستی آنکھیں رقم کیے دیتی ہیں۔

شعر۴۔ شعر ہلکا پھلکا ہے مگر اچھا ہے۔

شعر۵۔"گاؤں والوں نے دیکھنے نہ دیے خواب"
مروجہ شاعری میں لفظ گاؤں محبت اور ایثار کی نشانی ابھر کر سامنےآتا رہا ہے مگر یہاں شاعر نے شاید اُس قافیے کی خاطر گاؤں والوں کی روح مجروح کی ہے جو اصل میں قافیہ ہونے کی شرط پورا ہی نہیں کرتا۔

مقطع اچھا ہے اور میر تقی میر کی یاد تازہ کرتاہے۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

یا پھر جگر کی یاد
۔۔۔اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

غزل واقعی خوبصورت یے مگر ہمارا مسلک ہے
"ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں"

ڈاکٹر شیدا کے ،
غزل کے حوالے سے،
اگر ذاتی تجربوں کے بارے میں دو باتیں نہیں کی جائیں تو نا انصافی ہوگی۔

اس غزل کے تناظر میں شاعر کی شستہ بیانی،
جمالیاتی حس،
مجاز مرسل کا پیرایہ اوڈھے بات کرنا

اور سادہ مگر پراثر لہجہ کاقائل ہونا
ثابت کرتا ہے کہ شاعر کا اسلوب جملہ صفات کے ساتھ ادب کے افق پر دھنک کے رنگ بکھیرنے کا کام کر گزرتاہے۔

یہ شاعری فلسفی سے بحث نہیں کرتی بلکہ اس احساساتی کشمکش کے دریچے وا کرتی ہے جو زمانے کے ساتھ دو دو ہاتھ کرتے وقت شعری کردار کو میسر آتی ہے۔رشتوں کی نازک ڈور سے بندھا شعری کردار کتنی خوبصورتی کے ساتھ محبوب کے ناز اٹھاتا ہے۔ماں کا اپنے پاس ہونے کا احساس اسے دنیا کی عظیم ترین نعمت کا حامل بناتاہے۔اللہ کے دربار میں خشوع اور اس سے مانگتے وقت دست دعا اٹھانے کے بجائے چشم تر کو سامنے کرنا یہ جملہ احساس شعری کردار کی پاکیزہ شریعت پر دلالت کرتا ہےاور اس پر طرہ یہ کہ شعری کردار اس دریاء میں طوفانوں کے باوجود غوطہ زن ہونے پر دل سے آمادہ ہے۔
میری طرف سے شاعر کو بہت بہت تحسین۔

No comments: