Popular Posts

Friday, April 3, 2020

اے احتسابِ زندگی

اے احتسابِ زندگی
طارق احمد طارق

اے احتسابِ زندگی
مجھ کو بتا یہ کیا ہوا
یہ کس بلا کے خوف سے
دنیا گھروں میں قید ہے
ہیں دھڑکنیں سہمی ہوئی
رفتار دل کی تھم گئی
عرب و عجم یورپ میں بھی
ہیں دم بہ خود انساں سبھی
سڑکیں بڑی سنسان ہیں
بازار سب ویران ہیں
اِک رقص ہے بس موت کا
ہونٹوں پہ بس ہے واویلا
ہمّت ہے کس کو دیکھ لے
یہ کون تھا اور کیوں مرا

اے احتسابِ زندگی
کچھ آئینہ مجھ کو دکھا
مجھ کو بتا ایسی خطا
جس کی بھیانک ہو سزا
میں بھی بتاؤں کون ہوں
اپنی تجھے پہچان دوں
حسباً میں عالی شان ہوں
اِس دور کا انسان ہوں
نائب خدا کا میں ہی ہوں
اِس بات پر میں خوش تو ہوں
اتنا ہے بس میرا  چلن
اپنی ہی دُھن میں ہوں مگن
تھوڈی سی جو غفلت ہوئی
شرم و حیاء رسوا ہوئی
بغض و حسد چالاکیاں
لیتی رہیں انگڑائیاں
اور چیرہ دستی عام ہے
حق بات زیرِ دام ہے
میری وجہ سے چار سُو
انسانیت بدنام ہے
لا چارگی کی بےبسی
مجبوریوں کی سِسکیاں
محکومیوں کی سرد آہ
مظلوم کی آہ وبقا
شاید کہ پہنچی عرش پر
اور عرش والے کا غضب
آتا نہیں ہے بے سبب
اور عرش والے نے کہا
اِک بے وقعت مخلوق سے
جا معجزہ اُن کو دکھا
برسوں کی بھوک کو مٹا
آدم کے بیٹوں کو بنا
اپنا نِوالا ہر جگہ
پھر بے وقعت مخلوق نے
انسانوں کی اِس بھیڑ پر 
شب خون مارا چار سُو
کیڑے مکوڈوں کی طرح
لاکھوں ہزاروں مار کر
اس بے وقعت مخلوق نے
اپنا نِوالا کردیا
اور بھوک ہے باقی ابھی 
اِس بے وقعت مخلوق کی

اے احتسابِ زندگی
ہم کو بتا ہم کیا کریں
مشرق کے سب سقراط بھی
مغرب کے آئنس ٹائن بھی
بے بس ہیں اور حیران ہے
اِنگشت بردندان ہیں
مایوسیوں کا راج ہے
وائرس کے سر پر تاج ہے۔



No comments: