Popular Posts

Monday, March 30, 2020

اُجالوں سے


اُجالوں سے

طارق احمد طارق

شگفتہ خواب خود رکھ لو
سبھی القاب خود رکھ لو
اُجالو اپنی سر مستی
خود ہی کے پاس تم رکھ لو

میں تنہائی کے جنگل میں
بہت ہی دیر بھٹکا ہوں
اندھیروں کے بیاباں میں
میں نقدِ جان رکھتا ہوں

جنوں کا پیرہن پہنے
میں ویرانوں میں چلتا ہوں
جودرپن بے بسی کا ہو
اُسی میں خود کو تکتا ہوں

امیدوں کی سبھی شاخیں
تمنّاؤں کی ہر ٹہنی
گمانوں کی ہی دھرتی پر
میں ہی اکثر اگاتا ہوں

دُکھوں کا خوشنما آنچل
اِن ہی کی ریشمی چادر
تمنّاؤں کے دھاگوں سے
بداتِ خود سِلاتا ہوں

لہذا اپنی خواہش کو
اُجالو اِس نوازش کو
عنایتوں کی بارش کو
خود ہی کے پاس تم رکھ لو۔

No comments: