Popular Posts

Friday, January 5, 2018

ماہ پارہ شبیر کی غزل اور اس کا تجزیہ

Tariq Ahmad Tariq
شاعرہ۔ ماہ پارہ شبیر
تجزیہ نگار۔ طارق احمد طارق
غزل
برسےجومیرااشک گہرباردیکھنا
نخل مرادہوگاثمرداردیکھنا
نفرت کی تنددھوپ مین سایہ حیات پر
بن کےشجرکرےگامیراپیاردیکھنا
پرسش توہوگی تم سےبھی دربارعدل مین
اک مین ہی نہین ہونگی خطاکاردیکھنا
دنیای عشق مین یہ تعجب کی بات ہے
خودداردل رباکووفاداردیکھنا
ہرشخص کونہ میرامخالف قیاس کر
کوئی توہوگامیراطرفداردیکھنا
آئےکبھی جویوسف کنعان روبرو
چاہےنہ کون مصرکابازاردیکھنا
منصورسےجولےگازٙرِعشق
مستعار
کیونکرنصیب اسکانہ ہوداردیکھنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل کا تجزیہ
تجزیہ نگار۔طارق احمد طارق
غزل بہت اچھی ہے۔فصاحت کی چاشنی سے لبریز ہے۔مذہبِ عشق کا موضوع انداز بدل بدل کر پیش ہوا ہے۔شاعر کا لہجہ کافی سلجھا ہوا دکھائی دے پڑتا ہے
فارسی آمیز تراکیب کا استعمال شاعر کے وسیع المطالعہ ہونے کا  اشاریہ ہے۔
مطلع کافی خوبصورت ہے۔
نخل مراد کو ثمردار کرنے کےلیے اشک ِگہربار کی بارانی ضروری ہے۔یہ تعلیل حقیقی و مجازی ہر دو عشقیہ شاہراہوں کے لیے جزو لاینفئک ہے۔
دوسرے شعر کی خوبی حسنِ تضاد کی کہکشاؤں سے دوبالا ہوچکی ہے ۔نفرت کی تند دھوپ کے بالمقابل پیار کا سایہ محاکات کی قندیل سجاتا نظر آتا ہے۔
تند دھوپ کے بجائے تیز دھوپ کا مرکب ذیادہ مستعمل ہے، مگر وزن کی مجبوری کا کیا جائے۔
تیسرا شعر بہت خوبصورت ہے۔ عاشق اور محبوب کی معاملہ بندی کا غماز ہے۔نُوک جُوک اور تلخ وشیرین یادوں کے لیے دونوں کے سر الزام رکھنے سے سنگ ملامت لیلی اور نہ مجنون پر برسنے کا خطرہ باقی رہتا ہے۔
اگلے شعر میں حسن تضّاد کی صنعت کا پھر سے استعمال کرکے شاعر نے اپنی ذبان دانی کا عندیہ دیا ہے۔ مخالف بمقابل طرفدار حسن تضاد پیش کرتا ہے۔
یوسف کنعان کی وجہ سےبازار کی وقعت کا بڑھنا قرین القیاس ہے۔اس حقیقت کو شاعر نے ندرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
پوری غزل ایک حسین گلدستہ کہ مانند ہے۔موضوع گرچہ روایتی ہیں، مگر لہجہ شاعر کی انفرادیت کو آشکارہ کرتا ہے۔اسلوب کی خوشبو بھی باغ کا پتہ دئے بغیر نہیں رہی ہے۔شاعر کو ڈھیر سارا پیار، اور داد ہی داد۔
خدا کرے زور قلم اور ذیادہ۔


No comments: