Popular Posts

Wednesday, April 5, 2017

غزل"سمندر کے سینے میں سب کچھ تو ہے" از قلم حکیم منظور

Download this article in PDF format. Click here

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------

آج کی غزل کے حوالے سے جو حکم مجھے ہوا ہے کہ میں اس پورے تنقیدی مباحثے کا احاطہ کروں اور ساتھ میں اپنی آرا بھی پیش کروں، اس حکم کی تعمیل میں پہلے یہ معذوری ظاہر کروں کہ اساتذہ کی آرا پر رائے زنی کرنا میرے لیے ایک کڑوا پیالہ ہے جسے میں محض رفیع آباد ادبی مرکز کے سرپرست"ڈاکٹر رفیق مسعودی" کی ایماء پر نہایت ہی احتیاط کے ساتھ بہ سر خم انجام دینے کی کوشش کروں گا ۔
زیر موضوع غزل پر اچھا مباحثہ ہوا۔تقریباً تمام مقتدر شعراء نے مباحثے میں حصہ لیا۔جن میں ڈاکٹر رفیق مسعودی صاحب، شبیر احمد شبیر، ڈاکٹر شوکت شفا، حسن اظہر، نثار گلزار، شبنم گلزار، نگہت صاحبہ، فوزیہ مغل، حلیم سوپوری کے نام حاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
شرکائے محفل کے تنقیدی پیرائیوں کا میں صرف ماحصل اگر پیش کروں تو کچھ ایسی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔
ڈاکٹر شوکت شفا۔
"مجھ بندشِ کلام نے بڑا متاثر کیا۔کلام اچھا ہے مگر۔۔۔۔زبردست نہیں کہ سکتا۔"
حسن اظہر۔
"تخلیقی سطح پر شاعر بہت کامیاب ہے۔پہلے دو اشعار میں الفاظ اور معنیات ایک دوسرے سے دور بھاگتے نظر آتے ہیں۔باقی اشعار اچھے ہیں مگر ان میں شعریت نہیں ہے۔"
نثار گلزار۔
"سمندر کو بے رحم ثابت کرنے کی بےجوڈ تصویر کھینچی گئی ہے۔آگ اور خون کی ہولی دکھائی گئی ہے۔کلام جدت سے عاری ہے۔بالکل بوسیدہ۔"
شبیر احمد شبیر۔
"مطلع میں الفاظ کی تکرار بیجا ہے۔بلاغت کے منافی۔تیسرے شعر میں وزنی سُقم ہے اور معنوی ربط غائب ہے"
نگہت صاحبہ۔
"کوئی تو ہو جو مجھے 'کھلاچاند' والا شعر تشریح کرکے دے ۔پلیز۔"
حلیم سوپوری۔
"بہت اچھا کلام ہے۔"
ڈاکٹر رفیق مسعودی۔
"آخری شعر میں غضب کی ڈرامائیت موجود ہے۔"
بحث اس طرح یہاں آکر ٹھہر گئی۔
اساتذہ کے تنقیدی نقاط اس بات کا اشاریہ ہے کہ کیا یہ کلام قارئین کے معیار کا تھا کہ نہیں۔ کیا شاعر کو مذید مشقّت درکار ہے کہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے کچھ عرضداشت۔
"طارق احمد طارق"
غزل کا پہلا شعر۔
سمندر کے سینے میں ہے سب مگر
سمندر کے سینے میں بس دل نہیں
سمندر یہاں، میرے حساب سے اپنے عمومی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
"سب" مبالغہ کے طور۔
سمندر سے انسان اپنی بےشمار ضروریات کو پورا کرتاہے۔
"دل نہ ہونا" بمعنی بے رحم ہونا۔
شعر ایک عمومی تجربہ پیش کرتا ہے۔
اگر شاعر نے سمندر کو استعارہ بنایا ہوتا تو بہت سارے مفاہیم کو ادا کرسکتا تھا۔
"سمندر بطور استعارہ"
وہ چیز جہاں صبرواستقلال،بردباری،ایثار جیسے جزبات خموشی سے سرگوشیاں کرتے ہوں۔
سمندر کے پاس بس دل نہیں۔ یہ کہہ کر سمندر کے جملہ خصائص کی نفی کی گئی ہے۔
دوسراشعر۔
"ملا جس میں آتش کو اک قطرہ خون"
یہ مصرع دلالت کرتا ہے کہ آتش کو بہت خون ملنے کی امید تھی۔ یہ کس معنی میں شاعر نے لیا ہے اس کی کھوج کےلیے 'کلیم الدین احمد' سے شاید رجوع کرنا پڑے گا۔
"دریا بے ساحل " نہیں ہوتا۔ہاں اگر مصرع اولی میں طوفان یا سیلاب کا ذکر ہوتا تو یہ مبالغہ جائز تھا۔
سمندر انسانی آنکھ کو بے ساحل دِکھتاہے۔ایسے جزبات کی ترسیل کےلیے سمندر ہی مناسب تھا۔
تیسرے شعر میں عمومیت کا رنگ ہے مگر بات سامنے آئی ہے۔محبوب کو چاند اور گل کے ساتھ موازنہ کراکے یہ جتلانا تھا کہ وہ ان سے ذیادہ خوبرو ہے، بات پوری ہوتی ہے۔
"کھلا چاند" کا پیکر زبردستی والا معاملہ دکھائی دے پڑتاہے۔
چوتھا شعر۔
"بدلتے ہیں رُخ" میں کافی ابہام ہے۔
یہ رخ کون بدلتا ہے۔۔۔
شعری کردار 
   یا  
  محبوب
   یا
  راستہ۔
دوسرا مصرعہ بہت کمزور ہے۔شاید شاعر کے پاس قافیہ کی بڑی تنگ دامنی رہی ہے۔
"راستے میں دل ہونا" کون سا محاورہ ہے جو اسے غزل کے ماتھے پر سجانے کی کوشش ہوئی ہے۔"
پانچواں شعر۔
"کھلے تو وہ گل"۔ محبوب کا کھلنا کیا معنی دیتاہے۔کہیں یہ بازاری زبان تو نہیں بن جاتی۔
"بکھرے تو چاندنی"۔بکھرنا کا لغوی اور احساساتی معنی میں آج تک فرق نہیں آیا ہے۔
بکھرنا =
ٹکڑے ٹکڑے ہونا،
پاش پاش ہونا،
ریزہ ریزہ ہونا وغیرہ۔
محبوب بکھر کر چاندنی بننا اور پھر اس پر یہ دعوا کہ یہ تعریف ہے۔میری سمجھ کی سمجھ سے بھی بعید ہے۔
آخری دو اشعار قدرے ٹھیک ہی ہیں۔
یہ باتیں جب ابھر کر آئیں تو ہمیں دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ اپنی خامیاں پہلے تسلیم کرنی چاہیں پھر ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
میری رائے فقط میری رائے ہے حرف آخر نہیں۔مگر کہتے ہیں نا "جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے"۔عام قاری کو شاعری پڑھتے وقت انبساط بھی ملے اور بصیرت بھی۔اس میں پیچدہ پیکر تراشی عموماً مانع آتی ہے۔
جب مجھے بحیثیت شاعر اپنی تخلیق صفحہ قرطاس پر لانی ہو تو مجھے چاہیے کہ۔۔
میری تخلیق پُر ترتیب اور پُر ترکیب ہو۔
وہ شدید جزبہ و احساس کی عکاس ہو۔
میرے پاس ایک جزبہ اور جنون ہو۔
میں ادب کے مزاج اور جمالیات سے بخوبی مانوس ہوں۔
مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ فن پارہ میرے ہاتھوں سے نکل کر ان لوگوں کے پاس آ پہنچتاہےجو۔
قوت تجزیہ اور قوت تحلیل کی کمائی رکھتے ہیں۔
جو  علم اور ادراک کی کسوٹی رکھتے ہیں ۔
علم اور فرزانگی جن کا شیوہ ہوتا ہے۔
جو روایات ادب سامنے رکھ کر تول تول کر بات کرتے ہیں۔
شاعر کو میری طرف سے بہت بہت داد ۔
"شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات"
شکریہ سبھی اساتذہ کا۔

No comments: