Popular Posts

Sunday, September 20, 2020

کنایہ

کنایہ اور ایہام میں فرق:
============

کنایہ میں لفظ کے دونوں معانی (حقیقی و مجازی) مراد لینا ممکن ہوتا ہے مگر مقصود مجازی معنی ہوتے ہیں ، جبکہ ایہام میں مشترک لفظ کے دو حقیقی معانی (قریب و بعید) مراد لیے جانے کا امکان ہوتا ہے مگر مقصود معنی بعید ہوتا ہے۔
کنایہ کا تعلق علم بیان سے جبکہ ایہام کا تعلق علم بدیع سے ہے۔

کنایہ کی مثال مومن خاں مومن کا یہ شعر ہے:
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ
رات کاٹی خدا خدا کر کے
اس کے مصرع ثانی میں "خدا خدا کرکے" کا حقیقی معنی یہ ہے کہ رات بھر اللہ اللہ کرتے رہے ، یعنی ذکر کرتے رہے ، جبکہ یہاں اس کے مجازی معنی مراد ہیں یعنی رات بڑی مشکل سے کاٹی ، کیونکہ اردو میں "خدا خدا کرکے" کا مطلب ہے "مشکل سے"

ایہام کی مثال نصیر الدین چراغ دہلوی کا یہ شعر ہے:
زلف لہرا کے وہ جس دم سرِ بازار چلا
ہر طرف شور اٹھا مار چلا مار چلا
لفظِ "مار" کے دو معانی ہیں:
معنی قریب = ضرب
معنی بعید = سانپ
یہاں مراد سانپ ہے۔

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

اسقاطِ برعکس:
=======
بہت سے شعراء یہ سوال کرتے ہیں کہ حرفِ علت کہاں گرانا ہے اور کہاں نہیں گرانا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا کوئی باقاعدہ اصول اور ضابطہ نہیں ہے ، بس دو باتیں دھیان میں رکھیں:
(1) حرف علت ( و / الف / ی) صرف لفظ کے آخر سے گر سکتا ہے ، بیچ یا شروع سے نہیں گراسکتے۔
(2) گرانے کے بعد یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پڑھنے میں ناگوار تو نہیں محسوس ہورہا۔
اب پھر یہ سوال تشنۂ جواب رہ جاتا ہے کہ پڑھنے میں ناگواری کا علم کیسے ہوتا ہے؟
اس کا ایک جواب میں یہ دیا کرتا ہوں کہ جس لفظ کے آخر سے حرف علت گرارہے ہیں وہ کثیر الاستعمال ہونا چاہیے ، جیسے کا ، کی ، کے ، کو ، وہ ، یہ ، ہے ، ہیں ، ہو ، تھا ، تھی ، تھے ، تھیں ، میں ، سے ، پہ ، نہیں
اس کے علاوہ طبع سلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ قراءت کا لطف برقرار ہے یا نہیں ، لیکن طبع سلیم ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔
اس لیے آج میں آپ کو قراءت کی ناگواری کی ایک اہم ترین صورت معلوم کرنے کا ایک بہت آسان سا اصول بتانے لگا ہوں کہ اس کی روشنی میں آپ بغیر طبع سلیم کے بھی بآسانی یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ حرف علت گرانے کے بعد قراءت کا لطف برقرار ہے یا نہیں۔
اس اصول کا نام میں نے "اسقاطِ برعکس" رکھا ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب آپ کسی لفظ کے آخر سے حرف علت گرائیں تو اس کے بعد اگر ہجائے بلند ہو جسے ہجائے کوتاہ بھی باندھا جاسکتا ہو تو اب یہ دیکھیں کہ جسے آپ نے گرایا ہے اس کا گرانا بہتر ہوتا ہے یا بعد والے ہجائے بلند کے دوسرے حرف کا؟ اگر بہتری کے اعتبار سے آپ نے برعکس کردیا ہو تو سمجھ جائیں کہ آپ کے مصرع میں قراءت کا بالکل لطف نہیں ہے۔
مثلا آپ نے مصرع کہا:
"جیسے کہ آپ کچھ نہیں لگتے"
(فاعلاتن مفاعلن فعلن)
اس میں "جیسے" کی ے گرائی ہے ، اب اصولِ "اسقاطِ برعکس" کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ اس کے بعد "کہ" ہے جسے ہجائے بلند باندھا گیا ہے جبکہ "کہ" کو ہم ہجائے کوتاہ بھی باندھ سکتے ہیں ، بہتری کے لحاظ سے دیکھیں تو "جیسے" کی ے کی بنسبت "کہ" سے "ہ" گرانا بہتر ہے جبکہ اس مصرع میں برعکس کردیا گیا ہے کہ "جیسے" کی ے گرادی گئی ہے اور "کہ" کی ہ نہیں گرائی گئی ہے ، معلوم ہوا کہ اس مصرع میں قراءت کا لطف برقرار نہیں ہے ، لہٰذا مصرع بہتر کرنا ہوگا ، یہ بہتر کرنے والا کام آپ بھی کرسکتے ہیں ، کیا کہا؟ نہیں کریں گے تو پھر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ:
"گویا تم میرے کچھ نہیں لگتے"
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

نعت میں ضمائر کا استعمال
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی

نعت گوئی کے فن میں ضمائر یعنی ’تو ‘ اور ’تم‘ کا استعمال اور ان کے مراجع کا تعین ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ضمائر کا استعمال حد درجہ سلیقہ اور قرینہ کا متقاضی ہے اس لیے کہ ضمائر کے استعمال میں اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کون سی ضمیر کس ذات کے لیے استعمال ہورہی ہے اور اس کا تعلق عبد سے ہے یا معبود سے ،نیز اسی کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ کس ضمیر کا مرجع کیا ہے ۔نعت میں ضمائر کے استعما ل سے زیادہ توجہ اور احتیاط اس کے مرجع کے تعین میں دامن گیر ہوتی ہے۔ بہ ہر حال! نعت میں ضمائرکااستعمال کیا جاسکتا ہے لیکن مکمل حزم و احتیاط کے ساتھ کہ معنی و مفہوم تخریب کاری کے شکار نہ ہوں ورنہ عبد کا اطلاق معبود پراور معبود کا اطلاق عبد پر ہوجائے گا جس سے دنیا و آخرت کی تباہی وبربادی ہمارا مقدر بن سکتی ہے ۔امیرؔ مینائی کا یہ شعر دیکھیں جس میں مرجع اور مُشارُ الیہ کا تعین سمجھ میں نہیں آتا ؎

پاک تھی رنگِ دو رنگی سے وہ خلوت گہہِ خاص
وہی شیشہ ، وہی مَے خوار تھا معراج کی شب

امیرؔ مینائی کا یہ شعر اس امر کا اشاریہ ہے کہ قابَ قوسین کی خلوتِ گاہِ خاص میں دو نہ تھے بل کہ صرف ایک ہی ذات تھی۔وہی ذات شراب کی بوتل ، وہی ذات شراب پینے والی تھی۔ مصرعۂ اولیٰ کے لفظ’’ وہ ‘‘ کا مرجع اور مُشارُ الیہ کون سی ذات ہے واضح طور پر پتہ نہیں چلتا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے یا اللہ جل شانہ کی ۔امیرؔ مینائی کا ’’وہی ‘‘ سے خدا کی طرف اشارہ ہے یا حبیبِ خدا کی جانب ، یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔غرض مرجع اور مُشارُ الیہ کے مجہول استعمال سے شعر ایک پہیلی بن کر رہ گیا ہے ۔ خدا کو رسولِ خدا کا منصب دینا یا رسولِ خدا کو خدا کے مقام پر فائز کرنایا دونوں کو ایک ہی قرار دینا دونوں ہی صورتیں قابلِ گرفت ہیں۔ نیز خدا اور حبیبِ خدا کو شیشہ وشراب اور مَے خوار جیسے سوقیانہ الفاظ سے تشبیہ دیناادب و احترام کے یک سر خلاف ہے ۔چناںچہ آدابِ نعت میں یہ بات پیشِ نظر رکھنا شاعر کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس صفت یا ضمائرکا استعمال کررہا ہے وہ ادب اور احترام سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو، تاکہ کسی بھی طرح سے نعت کا تقدس اور پاکیزگی مجروح نہ ہوسکے ۔ عربی اور فارسی کے بجاے اردو لسانیات کا یہ ایک توصیفی پہلو ہے کہ اس میں معظم او رمکرم شخصیتوں کے لیے ضمیرِ تعظیمی (آپ)کااستعمال کیا جاتا ہے جس سے ممدوح کا علوے مرتبت ظاہر ہوتا ہے ۔اس لیے نعت میں ضمائر ’’تو ‘‘ اور ’’تم‘‘ سے اجتناب برتنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ لیکن یہاں یہ امر ذہن نشین رہے کہ جن بزرگ شعرا نے رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے نعتیہ کلام میں ضمائر کا استعمال کیا ہے انھیں شریعت سے بے خبر اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا بے ادب اور گستاخ قرار نہیں دیا جاسکتا۔جیسا کہ استاذِ محترم پروفیسر ڈاکٹر اشفاق انجم نے نعت میں ضمائر سے متعلق جو اظہارِ خیال کیا ہے اُس سے جیداکابرِ امت پر ضرب پڑتی ہے ۔ موصوف راقم ہیں:

’’ آج بھی اکثر شعرا سید الثقلین ، حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’تو‘ سے مخاطب کرتے ہیں ، میری نظر میں یہ گستاخی کی انتہا ہے‘‘(1)

محترم ڈاکٹر اشفاق انجم نے نعت میں ضمائر’’تو‘‘ …’’تم‘‘اور اس کی اضافی صورتوں کے استعمال کوبارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی سے تعبیر کیا ہے ۔ لیکن ہمیں حیرت ہوتی ہے موصوف کے مجموعۂ کلام کے نام ’’صلوا علیہ و آلہٖ‘‘ پر کہ اس میں ’’علیہ‘‘ ضمیر واحد غائب ہے جس کے معنی ہوتے ہیں ’’اُس‘‘ … اِس طرح اگر نعت میں ضمائر ’’تو‘‘ …’’تم‘‘ اوراس کی اضافی صورتوں کا استعمال استاذِ محترم ڈاکٹر اشفاق انجم کے نزدیک بارگاہِ نبوی علیہ الصلاۃ والتسلیم میں گستاخی ہے تو موصوف خود اس کے مرتکب ہورہے ہیں !…

یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم نعت میں ضمائر کے استعمال کی وکالت کررہے ہیں ۔ بل کہ ہمارا مقصود یہ ہے کہ لسانی ترقی کا دائرہ جب تک محدود رہا تو جن شعرا نے نعت میں ضمائر کا استعمال کیا انھیں گستاخ اور بے ادب قرار دینا سراسر انصاف و دیانت کے منافی ہے ۔ خود محترم ڈاکٹر اشفاق انجم کی مرقومہ ’’مناجات بہ واسطۂ صد و یک اسماے رسولِ کریم ﷺ‘‘کے چند اشعار نشانِ خاطر کریں جس میں آپ نے ضمائر ’’تو‘‘…’’ تم‘‘ اور اس کی اضافی صورتوں کا استعمال کیاہے ؎

مدد اے شفیعِ امم المدد
کہ گھیرے ہیں رنج و الم المدد
تم ہی ہو ولی و نبی و رسول
شفیق و شکور و حبیب و وصول
تمہی داعی و ہادی و ہاشمی
تمہی بالغ و صادق و ابطحی
تمہارے کرم سے ہوں میں نام دار
جلائے گی کیا مجھ کو دوزخ کی نار
ہو جنت میں ایسی جگہ گھر مرا
تمہیں دیکھوں ہر دم حبیبِ خدا
(اشفاق انجم ، ڈاکٹر:روزنامہ انقلاب ، ممبئی، جمعہ میگزین ، بہ تاریخ 1؍ جنوری 2010ئ،ص10)

ڈاکٹر اشفاق انجم کی اس مناجات سے استغاثہ و فریادکا جو پُر سوز انداز مترشح ہوتا ہے اس سے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی مخلصانہ عقیدت و محبت عیاں ہوتی ہے ۔ اس مناجات میں آپ نے ضمائر’’تو‘‘…’’تم‘‘ اور اس کی اضافی صورتیں استعمال کی ہیں، لیکن کہیں بھی معنی و مفہوم کا عمل ادب و احترام کے تقاضوں سے دور نہیں ہوا ہے۔ جب انجم صاحب خود ضمائر کا استعما ل کررہے ہیں تو انھیں چاہیے کہ اپنے فرمانِ والا شان پر نظر ثانی فرمالیں۔

اس کے علاوہ نعت میںضمائرکے استعمال سے متعلق ڈاکٹر اشفاق انجم ہی سے ملتا جلتا خیال ڈاکٹر ملک زادہ منظورؔنے اپنے ایک مضمون مشمولہ ماہنامہ ’’مظہرِ حق‘‘ بدایوںکے’’تاج الفحول نمبر‘‘میں ظاہر فرمایا ہے موصوف لکھتے ہیں :

’’ اچھے نعتیہ کلام کے حسن میں اس وقت اور اضافہ ہوجاتاہے جب شاعر احترام و ادب کے سارے لوازمات کو ملحوظِ خاطررکھے اور اسی سیاق وسباق میں الفاظ و محاورات ،صنائع و بدائع اور ضمائرکا استعمال کرے۔چوںکہ اردو زبان میں کلمہِ تعظیمی بہت زیادہ مستعمل ہیں اس لیے نعتیہ کلام میں ’’تو ‘ ‘اور ’’تم‘‘ قابلِ اجتناب ہوجاتے ہیں جو شعرا شریعت کے رموز ونکات سے واقفیت رکھتے ہیں وہ ان کی جگہ ’’وہ‘‘،’’اُن‘‘اور ’’آپ‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔‘‘(2)

ڈاکٹر ملک زادہ منظورؔ کی محولہ بالا عبارت سے نعت لکھتے وقت ضمائر کا خیال کس طرح رکھا جائے پورے طور پر واضح ہوگیا ہے لیکن مذکورہ عبارت اس بات کا اشاریہ بھی ہے کہ جو شعرا اپنے نعتیہ کلام میں ’’تو‘‘ اور ’’تم‘‘اور اس کی اضافی صورتوں کا استعمال کرتے ہیں گویا وہ شریعت ِ مطہرہ کے اسرار و نکات سے یک سر ناواقف ہیںاور یہ کہ یہ ضمیریں نعت میں استعمال کرناایک طرح کا سوئِ ادب اور گستاخی ہے ۔جب کہ اردو کا کوئی بھی ایسا شاعر نہیں ہوگا جس نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کمالِ ادب و احترام ملحوظ رکھنے کے باوجود ان ضمائر کا استعمال نہ کیا ہو ۔ قواعد کی رُو سے ان ضمائر ’’تو‘‘اور’’تم‘‘ کاجب تحقیقی جائزہ لیتے ہیں توجامعہ اشرفیہ مبارکپور کے رکنِ مجلسِ شوریٰ و معروف ادیب ڈاکٹر شکیل اعظمی ’’تو‘‘،تم‘‘ اور ’’تیرا‘‘ وغیرہ ضمائر کی تحقیق کرتے ہوئے اس طرح رقم طراز ہیں :

’’تو،تم ،تیرا ،وغیرہ اگرچہ لغۃً ضمیر ِ مخاطب اور کلمۂ خطاب ہے جو ادنا کی طرف کیا جاتاہے۔ فارسی میں’’تو‘‘ اور’’شما‘‘عربی میں ’’انت‘‘ ۔۔۔۔’’ انتم‘‘۔۔۔۔ ’’لک‘‘۔۔۔۔’’ بک‘‘ وغیرہ ایک ہی انداز سے استعمال ہوتے ہیں خواہ مخاطب ادنا اور کمتر درجے کا ہو یا اعلا اور برتر درجے کا۔لیکن اردو میں تو، تیرا ،تم جیسے کلماتِ خطاب وضمائرادنا اور کمتر درجے کے لئے مستعمل ہیں لیکن یہ معاملہ صرف نثر تک ہی محدود ہے ،نظم میں معاملہ اس سے مختلف ہے ۔

چناںچہ قواعدِ اردو از مولوی عبدالحق میں صا ف درج ہے کہ نظم میں اکثر مخاطب کے لیے ’تو‘ لکھتے ہیں یہاں تک کہ بڑے بڑے لوگوں اور بادشاہوںکو بھی اسی طرح خطاب کیا جاتاہے ؎

بعد شاہانِ سلف کے ’تجھے‘ یوں ہے تفضیل
جیسے قرآن پسِ توریت و زبور و انجیل
(ذوق ؔ دہلوی)

دعا پر کروں ختم اب یہ قصیدہ
کہاں تک کہوں ’تو‘ چنیں و چناں ہے
(میرؔ)

اگرچہ لغوی اعتبار سے’ تو ‘اور’ تیرا‘کے الفاظ کم تر درجے والوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں لیکن اہلِ زبان پیارومحبت کے لیے بھی ان کااستعمال کرتے ہیں اور کسی بھی زبان میں اہمیت اہلِ زبان کے محاورات اور استعمالات ہی کو حاصل ہوتی ہے اس لیے نعت ِ پاک میں ان کا استعمال قطعاً درست ہے اور اس میں کسی طر ح کی بے ادبی اور شرعی قباحت نہیں ۔‘‘ (3)

واضح ہو کہ نعت میں بارگاہِ رسالت مآ ب صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب واحترام کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے ضمائر ’تو ‘اور’ تم‘اور ان کی اضافی صورتوں کا استعمال بلاشبہ کیاجاسکتاہے اور نعت میں ضمائر کا استعمال کرنے والے بزرگوں اور نعت گو شعرا کو بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کابے ادب اور گستاخ قرار نہیں دینا چاہیے ۔بہ طورِ مثال مشہور ومعروف اور مستند شعرا کے نعتیہ اشعار جن میں ’تو،تیرا،تم،تجھ وغیرہ ضمائر کااستعمال کیا گیا ہے ملاحظہ ہو ؎

کھینچوں ہوں نقصانِ دینی یارسول
’تیری‘ رحمت ہے یقینی یارسول
(میر تقی میرؔ)

’تم‘ شہ دنیا و دیں ہو یا محمد مصطفیٰ
سر گروہِ مرسلیں ہو یا محمد مصطفیٰ
(نظیرؔ اکبر آبادی)

واللیل ’تیرے‘ گیسوے مشکیں کی ہے قسم
والشمس ہے ’ترے‘ رُخِ پُر نور کی قسم
(بہادر شا ہ ظفرؔ)
حشر میں امّتِ عاصی کا ٹھکانہ ہی نہ تھا
بخشوانا ’تجھے‘ مرغوب ہوا، خوب ہوا
(داغ ؔدہلوی)

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امّت پہ ’تری‘ آکے عجب وقت پڑا ہے
(حالیؔ)

جھلکتی ہے ’تری‘ امّت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
شیرازہ ہوا ملّتِ مرحوم کا ابتر
اب ’تو‘ ہی بتا ’تیرا‘ مسلمان کدھر جائے
(ڈاکٹر اقبالؔ)

’ترے‘ روضے کو مسجودِ زمین و آسماں کہیے
عبادت خانۂ عالم، مطاعِ دوجہاں کہیے
(محسنؔ کاکوروی)
’تو‘ جو چاہے ارے او مجھ کو بچانے والے
موجِ طوفانِ بلا اُٹھ کے سفینہ ہوجائے
(ریاضؔ خیرآبادی )

دل جس سے زندہ ہے وہ تمنّا ’تمہیں‘ تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا ’تمہیں‘ تو ہو
(ظفرؔعلی خان)

زینت ازل کی ’تو‘ ہے تو رونق ازل کی ’تو‘
دونوں میں جلوہ ریز ہے ’تیرا‘ رنگ و آب
(سائل دہلوی)

’ترے‘ کردار پہ دشمن بھی انگلی رکھ نہیں سکتا
’ترا‘ اخلاق تو قرآن ہی قرآن ہے ساقی
(ماہرؔالقادری )

سلام اے ظلِ رحمانی سلام اے نورِ یزدانی
’ترا‘ نقشِ قدم ہے زندگی کی لَوحِ پیشانی
(حفیظ ؔ جالندھری)

کس کی مشکل میں ’تری ‘ ذات نہ آڑے آئی
’تیرا‘ کس پر نہیں احسان رسولِ عربی
(بیدم ؔ وارثی)

مرے آقا رسولِ محترم خیرالورا ’تم‘ ہو
خدائی بھر کے داتا شافعِ روزِجزا ’تم‘ ہو
(جذبی ؔ بریلوی)

’تری‘ پیمبری کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے
بخشا گداے راہ کو ’تو‘ نے شکوہِ حیدری
(جوشؔ ملیح آبادی)

حمیدِؔ بے نوا پربھی کرم ہو
مُسلَّم ہے ’ترا‘ فیضِ دوامی

منقول

رباعی کے اوزان کی جانچ غیر روائتی اور عروضی پیچیدگیوں سے پاک طریقہ۔ سبب خفیف(2) اور سبب ثقیل (11) کا علم ہونا بہر حال ضروری ہے۔

رباعی کے اوزان آپ کی فنگر ٹپس پر۔ یہ بالکل ایسا ہی سادہ طریقہ جیسے ہم بند مٹھی سے مہینوں کے دن معلوم کرتے ہیں۔

پیش کردہ تصویر کو بائیں سے دائیں پڑھنا ہے۔

قاعدہ
۔۔۔۔۔۔

1-آپ تمام دس سبب خفیف رکھ سکتے ہیں۔
2-2-2-2-2-2-2-2-2-2-.....(1)

2- ہر تیسرا سبب یعنی تیسرا ، چھٹا اور نواں خفیف(2) بھی ہو سکتا ہے اور ثقیل(1+1) بھی۔

3-پانچواں اور چھٹا سبب ملا کر بہ وزن " عزیز" (121) باندھا جا سکتا ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مثال رباعی

  آنکھوں میں ترے حُسن کی زیبائی رہی
2_2_11_2_2_11_2_2_11_2
مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل
۔۔۔۔۔۔
  یادوں سے تری ، دل کی شناسائی رہی

2-2-11-2-2-11-2-2-11-2
مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل
۔۔۔۔۔
  اُترا نہ رَگ و پَے میں کوئی مثلِ حیات
2_2_11_2_2_11_2_2_11_2_1
مفعول مفاعیل مفاعیل فعول
۔۔۔۔۔۔
  بن تیرے مری ذات میں تنہائی رہی
2-2-11-2-2-11-2-2-11-2
مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل

  اجمل سروش

نوٹ: عددی تقطیع کو بائیں سے دائیں پڑھنا ہے۔

رباعی کے 24 اوزان ذیل میں دئے گئے ہیں۔ آپ ان کی جانچ فنگر ٹپس والے طریقے سے کر سکتے ہیں۔

محاسنِ شاعری
تحریر :شمسہ نجم
اردو لنک امریکہ میں شائع شدہ اور ہدا فاونڈیشن میں شامل میرا مضمون انحراف کے قارئین کی قیمتی بصارتوں کی نذر

مضمون : ☆ محاسنِ شاعری☆
تحریر :شمسہ نجم

حسنِ شاعری کیا ہے؟ کمالِ شاعری کیا ہے؟ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ محاسنِ شاعری کا یکجا ہونا شاعری کا حسن بھی ہے اور کمال بھی۔ شعر کی جمالیات جن عناصر میں پنہاں ہے ایک شاعر کے لیے ان کا ادراک ضروری ہے۔

         حسنِ شعر دو اہم محاسن وزن اور تخیل کا پابند ہے۔ لیکن اس میں ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ تخیل حقیقت سے جتنا قریب ہو گا شعر کا حسن اتنا ہی دیرپا اور جاوداں ہو گا۔ مجازی اشعار بھی بسا اوقات بلند تخیل کی وجہ سے بہت اونچے سنگھاسن پر فائز کیے جاتے ہیں لیکن ایسا کم کم ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بجا نہ ہو گا کہ حقیقت کو وزن اور خیال کے سانچے میں ڈھالنا ہی حسنِ شعر ہے۔

            کولرج نے شاعری کو خدا کے تخلیقی کام جیسا عمل  god-like act of creation قرار دیا۔ کولرج کے خیال میں شاعری بامعنی حسن کی تخلیق ہے جو بہت بامعنی الفاظ میں کی جاتی ہے۔ یعنی اس نے عمدہ  الفاظ کی استعمال کو لازم قرار دیا۔ اس کے علاوہ کولرج شاعری کے لیے ارفع خیالات کو لازم قرار دیتا ہے اس کا کہنا ہے کہ " شاعری میں ذوق سلیم ضروری ہے اور عظیم فن پاروں کا مطالعہ، قواعد و ضوابط اور نفسیات سے لگاو ذوق سلیم کے لئے ضروری ہے"۔

شاعری میں وزن کے استعمال کو ضروری قرار دیتے ہوئے کولرج کا کہنا ہے کہ "اس میں شک نہیں کہ نثر اور شعری زبان میں الفاظ ایک ہی ہوتے ہیں۔ لیکن الفاظ کی ترتیب انہیں مختلف بناتی ہے۔ یہ فرق وزن کے خیال سے پیدا ہوتا ہے"۔

اس کا خیال ہے کہ "جو چیز شاعری اور نثر کو الگ کرتی ہے وہ وزن ہے شاعر کے دل سے اُٹھنے والی جذبات و احساسات کے طوفان کو وزن کا استعمال متوازن بناتا ہے"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "نثر میں الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کئے جاتے ہیں اور شاعری میں بہترین الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کیے جاتے ہیں"۔ 
ورڈزورتھ (Wordsworth) نے مضبوط تخیل اور طاقتور احساسات کے بے ساختہ بہاو کو اہم قرار دیا اور کہا کہ

"Poetry (a matter of fact)is the overflow of the powerful feeling"
[Poetry is the spontaneous overflow of powerful feelings (lyrical Ballads)]

جرمن شاعر اور نقاد گوئٹے نے اپنی تنقیدوں میں فطری شاعری کی چار خصوصیات بتائی ہیں۔
روانی اور شیریں بیانی
خصوصی مضامین جو عام نہ ہوں
تخیل میں وسعت و گہرائی
نیا پن (تنوع)
مقدمہ شعرو شاعری میں مولانا الطاف حسین حالی کے مطابق شاعری کے لیے یہ شرائط ضروری ہیں۔
وزن
قافیہ و ردیف
تخیل
کائنات کا مطالعہ
تفحص الفاظ
حالی کے کہنا ہے کہ وزن اور بحر شاعری کے لیے اہم ہے۔۔شاعر کا جتنا "تخیل بلند" ہو گا شعر کا معیار اسی قدر بلند ہو گا۔ "کائنات کا مطالعہ" سے ان کی مراد جزئیات نگاری اور منظر نگاری ہے۔ یعنی اس طرح منظر کشی کی جائے کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کو نظر انداز نہ کیا جائے۔اور دنیا کے وسیع موضوعات کو شعروں میں پرویا جائے اور "تفحص الفاظ" یعنی مناسب بلکہ بہترین الفاظ کا استعمال جو شعر کے ابلاغ کو خوبصورت بنا دے۔
اس کے علاوہ حالی کہتے ہیں کہ "قافیہ بھی وزن کی طرح شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے۔ جس سے کہ اس کا سننا کانوں کو نہایت خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور اس کے پڑھنے سے زبان زیادہ لذت پاتی ہے"۔ (حالی مقدمہ شعروشاعری)
انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام علامہ اقبال کی 139ویں سالگرہ کے حوالے سے مذاکرے میں ڈاکٹر نعمان الحق نے ’’آقبال کی بازیافت‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح  کیا۔
"علامہ اقبال کے شعری محاسن حیران کردیتے ہیں۔ ان کے شعر کا آہنگ، بحرین اور زبان ایک عجیب کارنامہ ہیں جنہیں ادا کرکے صوتی بازگشت پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں کمال کی بحریں استعمال کی ہیں"۔
اقبال کی شاعری کو پڑھ کر احساس جاگتا ہے اقبال کی شاعری میں آہنگ و صوت، بحر یعنی وزن، اور زبان یعنی خوبصورت اور دیدہ زیب الفاظ کا استعمال اور تخیل کی بلندی نے جو حسن پیدا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
    شاعری کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ اس کے کچھ ضروری لوازمات بھی ہیں۔ ایک شعر کے دو عناصر اہم ہیں ایک وزن اور دوسرا خیال۔ اس کے علاوہ کئی ایسے عناصر کو بھی شعر کا حسن سمجھا جاتا ہے  جو ایک شعر کی زیبائش بڑھاتے ہیں۔ انہیں شاعری کی صنعتیں بھی کہا جاتا ہے۔ اعلی پائے کی شاعری ان صنعتوں سے بہرہ ور ہوئے بغیر  معیاری تخلیق کے پیمانے پر پوری نہیں اترتی۔ صنعتیں بے شمار ہیں ان میں سے چند اہم صنعتوں کے بارے میں ان کی افادیت کے پیش نظر ایک شاعر کا جاننا بہت ضروری ہے۔

● تخیل

انسان کی قوت متخیلہ جہاں تخلیقات کا سبب بنتی ہے وہاں ان کا معیار اور مقام بھی متعین کرتی ہے۔ جتنا تخیل بلند ہو گا شعر کا معیار اسی قدر بلند ہو گا۔ بلند تخیل عمیق مطالعے، علم  اور گہرے مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن عموما یہ انسان کو پیدائشی ودیعت ہوتا ہے۔

حالی اپنی کتاب مقدمہ شعروشاعری میں کہتے ہیں " قوت متخیلہ یا تخیل جس کو انگریزی میں امیجینیشن کہتے ہیں۔ یہ قوت جس قدر شاعر میں اعلیٰ درجے کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری اعلیٰ درجے کی ہوگی اور جس قدر ادنیٰ درجے کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری ادنیٰ ہوگی"۔

اکثر دیکھنے میں آیا ہے خیال جتنا حقیقت سے قریب ہوتا ہے اتنا ہی وہ قیمتی اور بلند ہوتا ہے۔ حقیقی شاعری میں خدا کی واحدانیت کو بیان کرنا تخیل کی معراج ہے۔ عمدہ تخیل شعر کو حیات جاوداں بخشتا ہے۔

قطرے میں دجلہ دکھائی دے اور جز میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا 

تخیل کی بلندی شعر کا معیار بلند کرتی ہے اور،شاعر کے مقام کا تعین کرتی ہے۔

تخیل کی پرواز شہ پارے تخلیق کرواتی ہے۔ 

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جام جم سے میرا جام سفال اچھا ہے

تخیل کے سبب شعر کی قدروقیمت مقرر ہوتی ہے۔
یہ تخیل کا کمال ہی ہے کہ درج ذیل شعر آج بھی زبان زد عام ہے۔

ان کے آنے سے جو آجاتی ہے رونق منہ پر
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
         (غالب)

میں جو سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
           ( اقبال)

جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کر ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

● قواعد و عروض کی پابندی (وزن)

غزل یا نظم جن قواعد کے مطابق لکھی جاتی ہے ان قواعد کا دھیان رکھنا چاہیئے۔ وزن کے پیمانے شعراء و اساتذہ نے پہلے ہی مقرر کر دیئے ہیں۔ پہلے بھی اشعار کہے جاتے تھے جب عروض اور وزن کے پیمانے دریافت نہیں ہوئے تھے۔ عرب میں بہت اچھے شعراء گزرے ہیں۔ شاعری کو قواعد و عروض کا پابند کرکے باقاعدہ علم کا درجہ بھی عرب میں دیا گیا۔ خلیل ابن احمد بصری نے جو کہ عربی علوم  کا ماہر تھا، شاعری کو اوزان بخش کر اس کو باقاعدہ علم بنا دیا۔ مختلف ادوار سے گزرنے کے بعداوزان میں اضافے کیے گئے۔

غزل اور نظم میں ان مقررہ اوزان یا بحروں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کی پابندی نہ کرنے سے خیال چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو شعر کی ادبی حیثیت متعین نہیں ہوتی۔ بحر کا استعمال اور وزن کا خیال رکھنے سے شعر میں آہنگ یعنی صوت پیدا ہوتا ہے۔ نثری نظم میں اوزان و بحور کی پابندی نہیں کی جاتی اسی لیے اساتذہ اور بڑے شعرا کے نزدیک نثری نظم قابل اعتنا نہیں ہے۔

● قافیہ و ردیف

شاعری کی مختلف اصناف ہیں۔ غزل پابند نظم، آزاد نظم، نظم معرا وغیرہ۔ غزل اور پابند نظم قافیہ اور ردیف کی پابند ہوتی ہیں۔ اور ردیف اور قافیہ کا مناسب انتخاب شعر کے ابلاغ میں حسن پیدا کرتا ہے۔ بسا اوقات ردیف قافیہ وارد ہوتا ہے۔ یعنی اچانک کچھ اشعار خود بخود تخلیق ہو جاتے ہیں۔ بقیہ غزل کو مکمل کرنے کے لیے اسی کے قافیہ و ردیف میں مزید اشعار کہے جاتے ہیں۔ ردیف وہ الفاظ ہیں جن سے ہر شعر کا اختتام ہوتا ہے ایک غزل میں ہر شعر کا  ایک ردیف رکھا جاتا ہے۔ اور ہم قافیہ الفاظ ہوتے ہیں۔ ردیف اور قافیہ کے امتزاج سے اشعار میں زیادہ نغمگی پیدا ہوتی ہے۔ آزاد نظم میں ردیف اور قافیہ کی پابندی ضروری نہیں۔ اسی طرح نظم معرا میں صرف وزن یعنی بحر کا دھیان تو رکھا جاتا ہے لیکن ردیف قافیہ نہیں ہوتا۔

ان کے آنے سے جو آجاتی ہے رونق منہ پر
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
         (غالب)

غالب کی اس غزل میں ردیف "اچھا ہے" استعمال کیا گیا ہے۔ اور قافیہ یعنی ہم آواز الفاظ سفال، حال اور ماٰل وغیرہ استعمال کیے گئے ہیں۔

● تضاد :

ایک شعر میں دو متضاد الفاظ کا استعمال جیسے صبح اور شام، غم اور خوشی، رات اور دن، زمین اور آسمان، جاہل اور عالم، خدا اور صنم، بہار اور خزاں، پھول اور کانٹے وغیرہ
اب تو یوں بسر روز و شب کے ہوتے ہیں
تھوڑی دیر ہنستے ہیں، تھوڑی دیر روتے ہیں
تضاد میں ایسے لفظ بھی آتے ہیں جو صرف معنی کے لحاظ سے  ضد ہوں۔
حوصلہ کب تھا جو کھل کر سامنے آتا وہ شخص
وہ مخالف بھی ہوا میرا تو درپردہ ہوا

● صنائع بدائع

صنائع بدائع کا استعمال بھی شعر کا حسن ہے۔ اس میں اول الذکر صنائع لفظی ہے جس میں صنعت تجنیس اہم ہے، جس کے مطابق ایک شعر میں دو یا دو سے زیادہ ایسے الفاظ استعمال کرنا جو دیکھنے اور ادا کرنے میں ایک جیسے یوں لیکن مختلف معانی ادا کرتے ہوں۔ مثلا:

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

دوسری صنعت اشتقاق ہے یعنی شعر میں ایسے لفظ جمع کر دیئے جاتے ہیں جن کا مصدر ایک ہوتا ہے ۔ مثلا:

اصل شہود شاہد و مشہود ایک ہیں
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

صنائع بدائع میں صنعت تکرار اور صنعت تلمیح بھی شامل ہیں۔ 

● تکرار الفاظ (صنعت تکرار)

الفاظ کی برمحل تکرار شعر کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔ تکرار الفاظ سے مراد اشعار میں ایک لفظ کو دو یا دو سے زیادہ بار اس طرح برتنا کہ الفاظ اپنی جگہ اپنا بھر پور مطلب عیاں کریں۔ 

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں
                (اقبال)

رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں 
                      (غالب)

کفرو حق کا جہاں معرکہ دیکھنا
کربلا کربلا کربلا دیکھنا
            (جبران)

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ 
جبیں افسردہ افسردہ قدم لرزیدہ لرزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ 
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ 
              (اقبال عظیم)

جاں دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

● سیاقتہ الاعداد:

تکرار  کی نوعیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عوامل یکجا ہو کر ایک حالت کو بیان کریں اسے سیاقتہ الاعداد کہتے ہیں۔  

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گئیں
                        (غالب)

منتظر مضطرب تھا میرا دل
دیر تم نے لگا دی آنے میں
آرزو ،  انتظار ،  امیدیں 
اب یہی رہ گیا فسانے میں
      (شمسہ نجم)

● اظہار عشق: 

اظہار عشق بھی شاعری کے محاسن میں آتا ہے چاہے کہ حقیقی ہو یا کہ مجازی۔

● تشیب و نسیب : 

تشیب : حقیقی یا مجازی محبوب پر شاعری کرنا 
نسیب : عام عشقیہ جذبات کا اظہار ہے
شاعری میں ان دونوں کی موجودگی ملحوظ خاطر رکھنا حسن شاعری ہے۔ 

● روانی و سلاست

کلام میں روانی اور سلاست شعری حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔ زبان پر گرفت، محاورہ، روزمرہ الفاظ، صرف و نحو اور تشبیہہ و استعارہ کا برجستہ استعمال روانی اور سلاست میں اضافہ کرتے ہیں۔ اور شاعری میں روانی بحور پر عبور سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ترنم اور غنائیت کے لیے مشق کی ضرورت ہے۔ اس مقام سے سب شعرا گزرتے ہیں بڑے شعراء کے بھی سیکھنے کے دور کی شاعری اور پختہ عمر کی شاعری میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔

● توجیہہ
اس میں ایک کلام کے دو متضاد پہلو نکلتے ہیں جیسے تعریف اور برائی۔ دعا اور بدعا مثلا

اب یہ حالت ہے کہ ان سا بے درد 
میرے بچنے کی دعا مانگے ہے
         (نا معلوم)

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں 
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
                    (غالب)

● تجاہل عارفانہ
شعر میں تجاہل عارفانہ اس وقت آتا ہے جب شاعر کو حقیقت کا علم ہے لیکن انجان بنتا ہے۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی 

جانے والا تو جا چکا جبران
کیوں تجھے انتظار رہتا ہے

● نازک خیالی

شعر کا حسن اس کی نازک خیالی بھی ہے۔ 

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گئیں

آ کے میری جاں قرار نہیں ہے
طاقت بے داد انتظار نہیں ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
             (میر)

صرف پتھر ہی نہیں جلتے غم کی آگ میں
برف سے بھی ہم نے دیکھا ہے دھواں اٹھتا ہوا
         (راہی)

● مدح اور ذم 

کسی کی تعریف اس انداز سے کرنا کہ وہ خوبیوں کا مرقع معلوم ہو حتی کہ اس کی برائی کو بھی اس کی خوبی بنا کر پیش کرنا۔
مدح کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خوبی بیان کرکے کوئی حرف استثنا جیسے لیکن مگر یا پر کہہ کر رکنا اور پھر ایک اور خوبی بیان کر دینا۔ جب کہ دھوکہ ہو کہ شاید برائی بیان ہونے والی ہے۔
مدح کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ تعریف بیان کی جائے اور پھر برائی کو بھی اچھائی بنا کر پیش کر دیا جائے۔
اور برائی بیان کرکے حرف اسثنا استعمال کرکے ایک اور برائی بیان کر دی جائے۔
● استبتاع
اس طرح تعریف کرنا کہ ایک خوبی سے دوسری خوبی نکل آئے

● ادماج
ادماج کا مطلب ہے لپیٹ دینا۔ لیکن یہ دراصل ایک مدعا یا عمل کے تحت دوسرا مدعا یا عمل انجام پانا ہے مثلا 
کی بعد میرے قتل کے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

● صنعت توشیح: 
ہر مصرعہ یا شعر کے حرف اول کو دیگر مصرعوں کے اول حروف کو ملانے سے کوئی نام یا عبارت حاصل ہو جائے۔ اسے صنعت توشیح کہتے ہیں یہ بھی شاعری کے محاسن میں سے ایک ہے۔ یہ قطعہ میں نے آٹھ سالہ بچی زینب کے قصور پاکستان میں زیادتی کے بعد قتل کئے جانے کے واقعے پر معصوم زینب کے لیے لکھا ہے۔ 

ز ۔ ی ۔ ن ۔ ب (زینب)
ز۔۔۔۔۔ زمانہ رحم کے جذبے سے ہی لاعلم  ہے شاید
ی۔۔۔۔۔یہی دستور دنیا  ہے یہی اب رسم   ہے شاید 
ن۔۔۔۔۔نہیں ہے یاد وہ بے موت جو ماری گئی بچی
ب۔۔۔۔بھلانا ظلم کو ایسے توخود پر ظلم ہے شاید 
               (شمسہ نجم)

● استہفامیہ انداز 

شعر میں استفہامیہ انداز بھی شعر کا حسن کہلاتا ہے۔ اور عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ شعر زیادہ موثر اور دل پر اثر کرنے والا ہوتا ہے جس میں سوال اٹھایا جائے۔ لیکن استہفامیہ شعر کے دونوں مصرعوں کا باہم ربط ہر عام شعر کی طرح استوار رہنا چاہیئے بلکہ دونوں مصرعوں کی بونڈنگ اور مضبوط ہونا چاہیئے۔ 

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں 
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
                     (اقبال)

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
   (غالب)

کچھ التفات تو نے زیادہ تو کر لیا 
پر اپنے دل کو تو نے کشادہ تو کر لیا؟
            ( شمسہ نجم)

● تعلی اور نئی راہیں(زمینیں) ڈھونڈنا اور جدت طرازی یا ابداع

ابداع کا مطلب ہے نیا تخلیق کرنایعنی موجد اور مبدع ہونا۔
شاعری میں نئی زمینوں کا استعمال شعر کا حسن ہی نہیں ایک شاعر کی مستند حیثیت متعین کرتا ہے۔ نئے خیالات نئی جہتوں اور نئی راہوں سے قاری یکساننیت کا شکار نہیں ہوتا اور ادب کو بھی خاطر خواہ فائدہ پہنچتا ہے۔ نئی تخلیق شاعر کی اپنی ایجاد ہوتی ہے۔ جدت طرازی سے اکتاہٹ اور یکسانیت نہیں ہوتی۔ تقلید کرنے میں برائی نہیں بڑے شعرا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی ہی زمینوں میں مشاعرے منعقد کیے جاتے ہیں۔ جن پر وقت کے چھوٹے اور بڑے شعراء طبع آزمائی کرتے ہیں۔ لیکن سارا کلام ہی دوسروں کا مرہون منت ہو یہ مناسب ہے نہ جائز۔

● تصرفات لفظی 

یعنی کسی نام یا چیز کو کئی دوسرے ناموں سے بلانا۔ جیسے کہ بادشاہ کو ظل الہی یا شہنشاہ وغیرہ بلانا

● ضرب المثال کا استعمال

ضرب المثال کا برمحل استعمال شعر کے حسن میں اضافہ کا باعث ہے۔ لیکن بھرتی کے لیے اور غیرضروری ضرب المثال کا استعمال نامناسب ہے۔ ضرب المثل جیسے کہ 
اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا
ضرب المثل کئی بار شعر کا حسن دوبالا کرنے کے ساتھ ساتھ شعر کا معیار  انتہائی بلند کر دیتی ہے۔ 

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی

● مجاز مرسل 

حقیقی معنی کی بجائے مجازی معنی استعمال کیے جائیں لیکن یہ تشبیہہ کی بجائے کسی اور سبب سے استعمال کیے گئے ہوں۔ مثلا بارش برس رہی ہو تو لوگ کہہ دیتے ہیں اناج برس رہا ہے یا ہن برس رہا ہے۔

● حسن تعلیل 

حسن لطیف سے کام لینا۔ ایک وصف یا صفت موجود ہے لیکن اس کی لطیف خیال کے ذریعے دوسری توجیح پیش کرنا۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں 
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
                      (غالب)

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
                        (فراز)

عروض کی بیشتر کتب کے مطابق کسی صفت کے لیے غیر واقعی سبب بیان کرنا۔ 

صفت حقیقت میں ہو اور اس کا حقیقی سبب بھی موجود ہو۔ لیکن اصل سبب کو سبب نہ کہے بلکہ اپنی طرف سے ایک اور  لطیف سبب بیان کرے۔ مثلا

ہو گئے دفن ہزاروں ہی گل اندام اس میں
اس لیے خاک سے ہوتے ہیں گلستاں پیدا

● لزوم مالایلزم یا خود ساختہ شرائط کا نفاذ 

کسی شرط کا خود پر لاگو کرنا یعنی کوئی چیز نہ ہو اسے لازم بنا لینا۔ جیسے کہ کسی شعر میں نقطے والے الفاظ سے گریز کرنا۔ مثلا 

ہو   سرور   اور  کو   مہ  کامل 
دکھ ہو اور درد ہو سو اس دل کو

ایسے شعر کو "غیر منقوط" کہتے ہیں۔

● ذوقافیتین

ایک شعر میں دو یا تین قافیے ہوں۔ یا دو قافیوں کے درمیان ردیف بھی ہو۔
درج ذیل شعر میں وزن سے صرف نظر کیجیے صرف قافیے کو دھیان میں رکھیے۔

ڈھلکے ڈھلکے، آنسو ڈھلکے
چھلکے چھلکے ساغر چھلکے
ان کی تمنا ان کی محبت
دیکھو سنبھل کے دیکھو سنبھل کے
          (ادا جعفری)

دو قافیے کی ایک اور مثال:
غیر کے آنے میں گھر ترے ہے نقصان ترا
میں ترے واسطے کہتا ہوں کہا مان مرا

● تشبیہہ کا استعمال

تشبیہہ کے لغوی معنی ہیں مشابہت، بمثل اور کسی شے کو دوسری شے جیسا یا اس کی مانند قرار دینا۔ اس کا ایک مطلب ہے مثال دینا۔ 

یعنی کسی خاص صفت یا خصوصیت کے مشترک ہونے کی وجہ سے ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دینا تشبیہہ کہلاتا ہے۔ 

کسی شخص یا چیز کی خوبی یا وصف یا برائی کی کسی ایسی چیز کی مثال دینا یا موازنہ کرنا جس چیز کی وہ خوبی معروف و مشہور ہو اور اس کا خاصا ہو، تشبیہہ دینا کہلاتا ہے۔ کسی کی بزدلی کے لیے گیڈر کی مثال دینا اور بہادری کے لیے شیر کی مثال دینا،اسی طرح کسی چالاک انسان کو لومڑی کہنا، کسی کے ظلم کے کثرت کی وجہ سے چنگیزخان  یا ہٹلر کہنا، سنگ دل کو پتھر اور  نرم دل کو موم کہنا وغیرہ تشبیہات ہیں۔ کیونکہ گیڈر ڈرپوک جانور کہلاتا ہے۔ شیر کی قوت اور بہادری سے کون انکار کر سکتا ہے۔ اسی طرح ظلم اور جبر میں چنگیز خان اور ہٹلر کا کوئی ثانی نہیں۔

● استعارہ کا استعمال

استعارہ کے لغوی معنی ہیں مانگ لینا۔ یعنی عاریتاحقیقی معنی کا غلاف مجازی معانی پر چڑھانا جیسے کالی گھٹا کہہ کر محبوب کے سیاہ بال مراد لینا۔ نرگس کہہ کر آنکھ مراد لینا۔ اور سرو قامت سے لمبا قد، عمر خضر سے طویل العمر وغیرہ۔ استعارے میں ایک چیز کو ہوبہو دوسری چیز مان لیا جاتا ہے۔ جیسے کہ بہت سیدھی سادی اور شوہر کے اشاروں پر چلنے والی اور اپنی خوشیوں اور انا کی قربانی دینے والی عورت کو ستی ساوتری کا لقب دیا جاتا ہے۔ استعارہ اور تشبہہ میں ایک نازک  اور بنیادی فرق ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ تشبیہہ میں دونوں کا ذکر ہوتا ہے جس کی تشبیہہ دی جائے اور جس سے تشبیہہ دی جائے جبکہ استعارے میں صرف اس چیز کا ذکر ہوتا ہے جسے استعارہ بنایا جائے۔ لیکن ایک بات کا دھیان رہے کہ استعارہ کا استعمال صحیح اور بر محل ہو۔ زبردستی استعارہ بنانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیئے۔ 

● کنایہ : 

کنایہ کا مطلب ہے کہ ایسے الفاظ کا استعمال کیا جائے جن سے واضح اور صاف مطلب اخذ نہ کیا جائے لیکن کسی کی بابت ایک رائے یا تاثر بھی واضح ہو جس سے کسی کی کردارنگاری میں مدد ملے۔ کنایہ کا مطلب ہے چھپا کر بات کرنا۔ یعنی الفاظ کے غلاف میں لپیٹ کر بات کہنا۔ کنایہ کی بھی اقسام ہیں۔ تعریض، تلویح، رمز ،ایما۔
کنایہ اور استعارہ علامت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ علامت شاعری اور نثر دونوں میں حسن پیدا کرتی ہے۔ راست بیانیہ کا حسن اپنی جگہ مسلم ہے۔لیکن علامت کے ذریعےڈھکے چھپے الفاظ میں مافی الضمیر بیان کرنا فی زمانہ رحجان کے حساب سے شعر و نثر میں ندرت لاتا ہے۔

● مطلع کی اہمیت: 

مطلع کے لیے اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ عمدہ شیریں اور جدت لیے ہو۔ پوری غزل کے لیے کشش پیدا کرے۔ اور دونوں مصرعوں میں ربط ہو۔ اور ایطائے جلی مطلع کا حسن ختم کر دیتی ہے اس سلسلے میں احتیاط بہتر ہے۔

● فلسفہ کا دخل

بسا اوقات شاعری میں فلسفے کا دخول بھی ہے جو کہ شاعر کی علمی و بصری استطاعت پر منحصر ہے۔ لیکن اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ کس حد تک اس سے استفادہ کیا جائے۔ فلسفے کا غیر ضروری اور بکثرت استععال شاعری کو ثقیل اور نا فہم بناتا ہے  اور شاعری کا حسن ماند کر دیتا ہے۔ لیکن کہیں انداز و بیان کا حسن فلسفے کو ایک خوبی کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اس کی مثال جناب علامہ محمد اقبال کا کلام ہے۔

کولرج کا کہنا ہے کہ "شاعری کا سارا جادو اس کا تمام حسن اس کی تمام قوت اس فلسفیانہ اصول میں ہے، جسے ہم طریقہ کار کہتے ہیں"۔ اس بات سے یہ مطلب بھی اخذ ہوتا ہے کہ شاعری کے وزن، تخیل اور الفاظ کا چناو کا عمل فلسفیانہ اصول ہیں۔

● وحدانیت

وحدانیت بھی شاعری کے محاسن میں سے ایک ہے۔خود شناسی اور self esteem انسان کی اپنی ذات کے علاوہ ذات خداوندی کی واحدانیت پر یقین پختہ کرتی ہے۔ خودی تک رسائی کائنات کے رموز تک رسائی ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے کہ بتا تیری رضا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
                      (غالب)

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
                   (اقبال)

● اعراب و لغت کا لحاظ 

ایک شاعر ابلاغ کے لیے جن الفاظ کا سہارا لیتا ہے وہ الفاظ اس شاعر کی ذہنی اور علمی استطاعت کا مظہر ہوتے ہیں۔ اور ان سے اس کے فن شاعری کی حیثیت متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ الفاظ کی استعداد لغت اور زبان پر عبور سے بڑھتی ہے۔

        بعض شعرا ابلاغ کے لیے آسان پیرایہ اور چھوٹی اور آسان بحور میں بہت سادہ زمین میں اظہار کرنا پسند کرتے ہیں ۔بعض زیادہ تر مشکل الفاظ اور گنجلک زمینیں استعمال کرتے ہیں۔ اور بعض سمجھدار شعرا زبان و بیان پر عبور ہونے کے باوجود آسان پیرائے کی غزلیں اس لیے کہتے ہیں کہ ہر خاص وعام ان کی بات کو سمجھ سکے اور وہ ہر عام قاری کے دل میں بھی جگہ بنا سکیں۔ اس طرح کے شعرا جو زبان پر عبور ہوتے ہوئے جو کچھ آسان اور عام فہم میں لکھتے ہیں وہ زیادہ موثر اور اعلی پائے کا ہوتا ہے۔

اعراب سے آگہی ہونا بھی بہت ضروری ہے اعراب سے لاعلمی یا اونچ نیچ وزن اور بحر میں کجی کا باعث بنتی ہے۔ جیسے کہ علم، عمر، خبر۔ علم کو عل+م پڑھنے کی بجائے اگر ع+ لم ، عم+ر کو ع+مر اور خ+بر کو خب+ر پڑھیں تو تلفظ کی غلطی کے ساتھ ساتھ شعر کے وزن اور بحر میں فرق پڑے گا جو شعر کو با وزن شعر کی فہرست سے خارج کر دے گا۔ اس لیے الفاظ کے اعراب کے لیے لغت سے رجوع کرنا احسن ہے ۔

            کچھ اجزاء اور اقدامات سے گریز کرنا یا جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ان کی موجودگی سے اور احتیاط نہ کرنے سے بھی شعر کا حسن متاثر ہوتا ہے۔ ان درج ذیل عیوب سے گریز کرنے سے شعر کا حسن نکھر کر سامنے آتا ہے۔

● تعقید لفظی سے ممکنہ گریز 

تعقید لفظی یعنی لفظوں کا آگے پیچھے ہو جانا۔ الفاظ کی نشست میں بے ترتیبی ہونے کی وجہ سے مصرع یا شعر سمجھنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑے۔ مثلا

اے دل نہ جا زلفوں میں اس صنم کی
ہر چین اس کی قید ہے ستم کی

● مبالغہ آمیزی سے گریز 

شاعری میں شاعر جب محبوب کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے تو اکثر مبالغہ آمیزی کرتا ہے لیکن یہ مبالغہ آمیزی بھی ایک حد تک اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن اگر یہ حد سے تجاوز کر جائے تو شعر کا حسن گہنانے لگتی ہے۔

شعر میں ایسی مبالغہ آمیزی سے گریز کرنا چاہیئے۔ جو کہ نہ تو قانل قبول ہوتی ہے اور نہ ہی جواز فراہم کرتی ہے۔ اس طرح شعر کی وقعت ہی کم نہیں ہوتی۔ شاعر کی اپنی حیثیت پر بھی فرق پڑتا ہے۔

● نامانوس الفاظ سے گریز 

نامانوس الفاظ سے گریز کرنا چاہیئے بسا اوقات ردیف کی کمی سے یہ قباحت پیدا ہوتی ہے کہ ایسے ہم آواز الفاظ استعمال کرنا پڑ جاتے ہیں جو کہ نامانوس اور عام بول چال میں استعمال نہیں ہوتے۔ایک آدھ ردیف کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے لیکن غزل یا نظم میں جگہ جگہ نامانوس اور مشکل فہم الفاظ کا استعمال کلام کے حسن کو ختم کر دیتا ہے۔ جب سمجھ ہی نہیں آئے گا تو لطف کیا خاک آئے گا۔ اس لیے کوشش کی جائے لغت کے متروک الفاظ اور گنجلک الفاظ سے گریز کیا جائے۔

● عامیانہ پن سے گریز 

عامیانہ پن شاعری کا حسن ختم کر دیتا ہے۔ فحاشی یا گھٹیا بازاری انداز شاعری کا معیار گرا دیتا ہے۔ تخیل اور گفتگو کا معیار اچھے یا برے ماحول کا پروردہ ہوتا ہے۔ ماحول اور صحبت کا اثر تخلیق کار کی ذہنی رو کا رخ بلندی یا پستی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اعلی معیار کی کتب کا مطالعہ اور اچھے لوگوں کی صحبت سے انسان کا مذاق بہتر ہوتا ہے۔ اور وہ عامیانہ اور گھٹیا الفاظ اور خیالات سے محفوظ رہتا ہے۔

شاعری میں قابل گرفت الفاظ سے گریز کرنا چاہیئے۔ عریاں الفاظ یا ایسے الفاظ جو خود شاعر کی ذات کو نشانہ بنائیں اور اسے ایک منفی کردار یا فحش پسند بنائیں سے گریز کرنا چاہیئے۔ کبھی کبھی شاعر حضرات اور شاعرات ایسے اشعار کہہ بیٹھتے ہیں جو ان کی جنس یعنی مردو عورت ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔ لیسبین یا گے  کا ٹپہ بھی اشعار میں لاپرواہی کے سبب لگ سکتا ہے۔ 

● مقطع سے اختتامیہ کا تاثر 

          غزل کے آخری شعر یعنی مقطع سے غزل کا اختتامیہ ظاہر ہونا بھی خوبی اور حسن ہے۔ اگر مقطع سن کر لگے کہ بات ابھی ادھوری ہے تو یہ چیز غزل کے حسن کو متاثر کرتی ہے۔ یا مقطع بالکل بے رونق ہو اور بقیہ غزل جیسی دلچسپی برقرار رکھنے سے قاصر ہو تو یہ بھی شعر کے عیب میں گنا جاتا ہے۔ 

          شعر کا حسن برقرار رکھنے کے لیے جو عوامل درکار ہوتے ہیں اور جن عوامل سے پرہیز کرنا چاہیئے ان کی طویل فہرست ہے. گو کہ صنائع و بدائع پر مفصل بحث کی ضرورت ہے لیکن میں نے چند زیادہ ضروری اور اہم محاسن کی یہ ایک فہرست تیار کی ہے۔ اور دوسرے شعرا اور نقاد کے خیالات بھی پیش کیے ہیں تاکہ شعراء صاحبان اور خاص کر نو آموز شعراء اس سے استفادہ حاصل کریں۔ دعاوں میں یاد رکھیں۔ بہت شکریہ۔ شمسہ نجم
https://hudafoundation.org/2018/06/05/article-by-shamsa-najam-3/

No comments: