Popular Posts

Sunday, September 20, 2020

متفرقات

انحراف کے لفظی و لسانی مباحث
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو میں اخذِ الفاظ کا اصول اور لفظِ "مشکور" کا معمّہ
تحریر : غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان
ایک زبان جب اپنے مخصوص اظہاریے کے لیے دیگر زبانوں سے الفاظ اخذ کرتی ہے تو اس سے نہ صرف اِس زبان کا دامنِ لفظ وسیع تر ہوتا جاتا ہے بلکہ دوسری تہذیب و ثقافت سے آشنائی اور لسانی یگانگت کا تعلق بھی استوار ہوتا ہے۔ تاہم یہ "اخذِ الفاظ" کا سلسلہ نہ صرف کسی مخصوص زبان سے اپنا رشتہ بناتا ہے بلکہ کئی زبانوں کے روزمرے اور محاوروں تک کو اپنے اندر کھپانے کی کامیاب سعی کرتا ہے۔ یہ سلسلہ ضرورت کی بنا پر ہو تو فبہا، ورنہ حد سے متجاوز ہو کر دوسری زبانوں کے لفظی اثاثے پر نظر رکھنا قرینِ دانش مندی نہیں۔ کیوں کہ حد سے بڑھا ہوا ’’اخذِ الفاظ‘‘ منفی نتائج کا سبب بنتا ہے۔
ہر معاشرے میں معنیٰ کی ترسیل کے لیے متعین الفاظ ہوتے ہیں۔ علاقائی سطح پہ الفاظ کی نوعیت اور ہیئت کا تغیّر ایک فطری امر ہے۔ ممکن ہے ایک جگہ کسی معنیٰ کے لیے جو لفظ وضع کیا گیا ہو، دوسری جگہ وہ لفظ اس معنیٰ میں مستعمل نہ ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ لفظ سرے سے ہی موجود نہ ہو۔ اس لیے معنیٰ کی ترسیل جس طرح لفظ کی محتاج ہے اسی طرح مختلف جگہوں پر ہونے کی وجہ سے ہم انسان بھی اس معاشرے یا ملک کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب کرنے اور اسے وہاں برتنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور ظاہر ہے وہی لفظ برتیں گے جو وہاں رائج ہوں۔
زبان تہذیبی عناصر سے اپنا لفظی سرمایہ جمع کرتی ہے۔ یہی اخذِ الفاظ وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتاہے اور جو زبان کسی تہذیب کے جتنا قریب ہوتی ہے اتنا ہی اس سے الفاظ مستعار لیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو میں اخذِ الفاظ کا اصول :
اس کا کلیدی اصول یہی ہے کہ وہ لفظ اپنی حقیقی تلفظ و معنیٰ کی رعایت کیے بغیر دوسری زبان میں دخیل ہوتا ہے اور یہاں آ کر اپنا نیا اور غیر حتمی معنیٰ زیبِ تَن کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف لفظ کو نیا استعاراتی پسِ منظر فراہم ہوتا ہے بلکہ اس میں بین المتن نئے علائم کا دخول بھی ممکن ہوتا ہے۔ اس کی مثال بہت سے الفاظ ہیں۔
قاعدہ یہ ہے کہ الفاظ تب مستعار لیے جاتے ہیں جب زبان میں متبادل موجود نہ ہوں، خواہ مخواہ مستعار لینے کا سبب تہذیبی زوال/ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ اخذِ الفاظ کے سلسلے میں یہ چیز ملحوظ رہنی چاہیے کہ ہمیں موضوغی الفاظ (Content Words) درکار ہیں یا ارتباطی الفاظ (Relational Words)۔ کیوں کہ اکثر تو موضوعی الفاظ ہی تارید کے مرحلے سے گزرتے ہیں، لیکن ممکن ہے کبھی ارتباطی سسٹم بھی اخذِ الفاظ کا تقاضا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند اصولی مباحث :
رشید حسن خان نے مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ :
”عربی میں جو لفظ فارسی سے، سریانی سے، عبرانی سے، ہندی سے آئے ہیں، ان کے تلفظ اور معنی دونوں کے تعیّن کا حق اب اہل عرب کو حاصل ہوگیا ہے، یا وہ الفاظ بدستور اُنھی دوسری زبانوں کے قاعدوں کے اسیر رہے ہیں؟۔۔۔ انگریزی میں سیکڑوں ہزاروں الفاظ لاطینی سے، یونانی سے، سنسکرت سے، عربی سے آئے ہیں، سب لفظوں کے تلفظ و معنی میں تصرف کا پورا حق انگریزوں کو حاصل ہوگیا یا نہیں؟
یہ ظلم آخر اردو پر کب تک جاری رہے گا کہ جس لفظ کو وہ چاہے جتنا اپنا لے، لیکن اسے بولتے ہوئے وہ پابند دوسری زبانوں کی رہے گی اور اس کی تذکیر و تانیث میں، اس کے اعراب میں ، اس کی جمع بنانے میں ، اسے حالتِ ترکیب میں لانے میں اردو والے بے بسی سے منہ دوسروں ہی کا دیکھتے رہیں گے! ذرا کسی دوسری زبان والے کے سامنے یہ اصول بیان کرکے تو دیکھیں کہ لفظ آپ کا لیکن اس کا املا، اس کا تلفظ، اس کی گرامر سب دوسروں کی“۔ [١]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ :
”فارسی اور اردو پر موقوف نہیں، ہر زبان میں دوسری زبان کے الفاظ آ کر اپنی اصلی حالت پر نہیں رہتے۔ البتہ چونکہ اردو کوئی مستقل زبان نہیں بلکہ عربی، فارسی، ہندی کا مجموعہ ہے، اس لیے اس کو عربی فارسی کے الفاظ پر تصرف کا بہت کم حق حاصل ہے۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے اس بات کا التزام زیادہ موزوں ہے کہ غیر زبانوں کے الفاظ صحیح تلفظ اور ترکیب کے ساتھ قائم رکھے جائیں۔ لیکن اس سے انکار ممکن نہیں ہو سکتا کہ اساتذۂ قدیم و جدید نے عربی و فارسی کے بہت سے الفاظ کو اردو میں غلط طور سے برتا اور آج وہی غلط استعمالات فصیح اور بامحاورہ خیال کیے جاتے ہیں“۔ [٢]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "نقش سلیمان" میں لکھتے ہیں:
"لفظوں کے لینے اور نکالنے میں عربی و فارسی و سنسکرت ڈکشنریوں کو کسوٹی بنانا اور ان میں سے دیکھ دیکھ کر لفظوں کو چننا اور کام میں لانا ہماری زبان کے حق میں زہر ہے اس کی سچی کسوٹی رواج اور چلن ہے آج جو لفظ عربی، فارسی، ترکی، ہندی، مرہٹی، گجراتی، پرتگالی اور انگریزی کے عام طور سے برتے جا رہے ہیں، وہ ٹھیٹ ہندوستانی الفاظ ہیں، ان کو اسی تلفظ کے ساتھ بولنا چاہیے، جس کے ساتھ وہ بولے جاتے ہیں“۔ [٣]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید انشاؔ نے دریائے لطافت میں لکھا ہے کہ :
”جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو ہوگیا خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو سریانی، پنجابی ہو یا پوربی، اصل کی روح سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ، اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی، اس کی اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ چونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گویا اصل میں صحیح ہو۔ اور جو اردو کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو“۔ [٤]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان کے ان تغیرات پہ سید انشاء جیسے ادیب کا قول سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولوی عبد الحق  لکھتے ہیں کہ :
”سید انشاء پہلے شخص نے جنھوں نے عربی فارسی زبان کا تتبع چھوڑ کر اردو زبان کی ہیئت و اصلیت پر غور کیا اور دونوں کے قواعد و ضوابط وضع کیے۔ اور جہاں کہیں تتبع کیا بھی تو وہاں زبان کی حیثیت کو نہیں بھولے“ صرف و نحو کے قواعد بھی بڑی جامعیت اور عمدگی سے بیان کیے گئے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ اس بارے میں جن جن باتوں کا انھوں نے خیال کیا ہے، متاخرین کو بھی وہ نہیں سُوجھیں۔ حالانکہ ایسا عمدہ نمونہ موجود تھا۔ اس سے سید انشاء اللہ خان کے دماغ اور ذوقِ زبان کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ الفاظ کی فصاحت و غیر فصاحت و صحت و غیر صحت کے متعلق (اوپر جو حوالہ ذکر ہوا) کتنی سچی رائے دی ہے۔ [٥]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظِ ”مشکور“ بمعنیٰ”شاکر“ :
کچھ لغات نے صراحت سے مگر مختصر ذکر کیا ہے کہ مشکور بمعنیٰ شاکر درست نہیں۔
البتہ مہرؔ فوقی بدایونی نے تفصیل سے لکھا ہے :
”مشکور عربی میں بمعنیٰ ستودہ، پسندیدہ۔ جیسے جعل اللّٰه سعيكم مشكوراً۔ مشکور بمعنیٰ ممنون نہیں آیا۔ تعجب ہے کہ مولانا شبلیؒ نے بھی ممنون کے معنیٰ میں استعمال کیا ہے۔
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں، ممنون ہوں، مشکور ہوں میں
مگر اب وہ نہیں ہوں کہ پڑا پھرتا تھا
اب تو اللہ کے اقبال سے تیمور ہوں میں [٦]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید سلیمان ندوی جواز کے قائل ہیں۔ لکھتے ہیں :
”عربی میں مشکور اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے اسی لیے مشکور کی جگہ بعض عربی کی قابلیت جتانے والے اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ شاکر یا متشکر بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنی چاہیے!
خود لفظ شکریہ کو دیکھیے کہ اصل عربی مگر شکل عربی نہیں اب اس سے ہم نے دو الفاظ بنائے ہیں: شکر اور شکریہ! خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور انسانوں کا شکریہ وہ ناشکرا ہے جو زبان کی اس توسیع کی قدر نہیں کرنا چاہتا“۔ [٧]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ابو الکلام آزاد مولانا عبد الرزاق کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
السلام علیکم۔ مزاج شریف!
والا نامہ ورود ہوا، شرفِ اعتماد ہمراہ لایا۔ خادم آپ کی اس عنایتِ بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا کہ اس نالائق پر نظرِ مشفقانہ فرمائی اور جوابِ عریضہ سے افتخار و عزت افزائی بخشی :
یہ فقط آپ کی عنایت ہے
ورنہ میں کیا؟ مری حقیقت کیا؟ [٨]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا عبد الماجد دریا آبادی سے اس لفظ بارے استفسار ہوا۔ آپ نے بذریعہ مکتوب اسے جواب مرحمت فرمایا۔ خطوطِ ماجدی صفحہ 179 سے دو خطوط ملاحظہ فرمائیں :
(1) مشکور بمعنیٰ ممنون اصلاً عربی قاعدے سے غَلَط ہے۔ لیکن اردو میں کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے اور عوام ہی نہیں بعض خواص بھی یہی بولنے اور لکھنے لگے ہیں۔ اس لیے زیادہ سختی اب صحیح نہیں، خاص کر جب اس کا عطف ”ممنون“ کے ساتھ ہو۔
اصلاً صحیح لفظ ”شاکر یا متشکر“ ہے۔ اور سلیس اردو میں ”شکر گزار“۔ [٠٩]
(2) سوال کے جواب میں گزارش ہے کہ میرے محدود علم میں ”مشکور“ اس موقع پر عربی قاعدہ سے صحیح نہیں۔ لیکن اردو میں اس کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ اب اسے غَلَط کہنا بھی آسان نہیں رہا۔
بہرحال خلافِ احتیاط ضرور ہے۔ میں اس موقع پر ”شکر گزار“ لاتا ہوں۔
اور اگر کوئی ”مشکور“ کا عطف ممنون کے ساتھ لے آئے، اب چونکہ غلط فہمی باقی نہیں رہتی۔ اس لیے بھی گنجائش نکل سکتی ہے۔ لغت سے مقدم اہلِ زبان کا محاورہ ہے۔
ہاں! خوب یاد آیا ” شاکر“ اور ”شکر گزار“ کا متبادل ایک لفظ ”متشکر“ بھی ہے۔ [١٠]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید حسن خان فرماتے ہیں :
”عربی قواعد کے لحاظ سے لغت نویسوں کا فیصلہ بالکل صحیح ہے، لیکن ایک دوسری زبان ان قواعد کی پابند کیوں ہو؟ ”مشکور“ بمعنیٰ ”شکر گزار“ آج بھی برابر استعمال ہو رہا ہے اور پہلے بھی بے تکلف استعمال کیا گیا ہے“۔ [١١]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشکور بمعنیٰ شاکر - شعری امثلہ :
ریختہ ڈاٹ کام مشہورِ زمانہ ویب سائٹ ہے۔ یہاں سے دو اشعار پیش ہیں :
جذبۂ ہمدردیٔ الفت ترا مشکور ہوں
جب کسی کی آنکھ بھیگی میرا دامن نم ہوا
مانیؔ ناگپوری
اپنی آزادی پہ میں اک چور کا مشکور ہوں
پیر جس چادر میں پھیلاتا تھا وہ لے کر گیا
شمیمؔ انور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگ رنگ اطمعہ ہیں بذل، پھر اس درجہ وفور
کیا خداوندی ہے اللہ، خدائی مشکور
یہ شعر مختلف جگہوں پر کلیاتِ میرؔ ، مرتبہ مولانا آسی، صفحہ نمبر 737 کے حوالے سے ملتا ہے۔ مذکورہ صفحہ پر تو نہیں البتہ 733 (در منقبتِ حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر موجود ہے۔ [١٢]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید جواد حسین شمیم امروہوی کا ایک بند ہے :
سایہ کی طرح تھا تن بے سایہ
سیر ہو کر کبھی مولا نے نہ کھانا کھایا
فقر و فاقہ میں فقیروں پہ کرم فرمایا
سعی مشکور ہوئی، مدح میں سورہ آیا
صدقِ دل سے جو کرم آپ نے فرمایا ہے
ہَل اَتیٰ خاص پئے وصف عطا آیا ہے [١٣]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید حسن خان اصولی و تمہیدی گفتگو کے بعد چند حوالے پیش کرتے ہیں۔ یہاں ان کے ذکر کردہ اقتباساتِ محوّلہ کو من و عن نقل کرتا ہوں :
(1) --- ”جو کچھ ہو سکے وہ لکھا کرو اور ممنون و مشکور کیا کرو“
(مکاتیب امیر مینائی، مرتبہ احسن اللہ خاں ثاقب، طبع دوم، ص 170)
(2) --- ”ان کے سبب سے میں آپ کا نہایت ممنون و مشکور ہوں“
(مکاتیب سرسید، مرتبہ مشتاق حسین ، ص 274)
(3) --- ”آپ کا خط پہنچا، میں ممنون و مشکور ہوں“
(خط : سید حسن بلگرامی - تاریخ نثر اردو، ص 598)
(4) --- ”خادم آپ کی عنایت بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا“
(قول : ابو الکلام آزادؔ - مرقعِ ادب، ص 45)
(5) --- علی اوسط رشک نے ایک جگہ ”شکور“ اسی معنیٰ میں استعمال کیا ہے۔ شعر یہ ہے :
شکرِ خدا کہ عشقِ بتاں میں شکور ہوں
راحت ملی، جو رنج مجھے یار سے ملا
(مجموعۂ دواوین رشک، ص 69)
“شکور” نام کے طور پر مستعمل ہے، مگر اس (مشکور) معنی میں اس نے رواج نہیں پایا۔ [١٤]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عربی دانوں کے رخسار پہ لطمۂ تحقیق :
بعض لوگ اردو پر عربیت کا اثر و رسوخ بٹھانے کی خاطر کہہ دیتے ہیں کہ «مشکور» مفعول کا صیغہ ہے لہٰذا اسے «شکر گزار» کے معنیٰ میں بولنا درست نہیں۔ تو ایسے قابلِ قدر نابغوں سے گزارش ہے کہ لفظوں کی یہ تعمیر و تخریب اردو والوں ہی کو نہیں سوجھی بلکہ خود عربی میں کئی ایسے صیغے ہیں جو اصلاً فاعل ہیں لیکن مفعول کے معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں اور کئی ایسے صیغے ہیں جو اصلاً مفعول ہیں لیکن فاعل کے معنیٰ میں برتے جاتے ہیں۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی لفظ کبھی فاعل کے لیے استعمال ہوتا ہے کبھی مفعول کے لیے۔
عربی میں فاعل بمعنیٰ مفعول کی کثیر تعداد ملتی ہے۔ مثلاً :
☜☜ امام جلال الدین سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ فاعل بمعنیٰ مفعول کبھی نہیں آتا، مگر صرف درجِ ذیل اقوال میں :
دافق بمعنیٰ مدفوقٌ (ٹپکا ہوا پانی)
سافٌّ بمعنیٰ مسفوفٌ (زیادہ پیا ہوا پانی)
راضیۃ بمعنیٰ مرضیۃٌ (پسندیدہ)
کاتمٌ بمعنیٰ مکتومٌ (پوشیدہ راز)
لیلٌ نائمٌ بمعنیٰ لیلٌ منومٌ (ایسی رات جس میں سویا جائے) [١٥]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
☜☜ امام ابو منصور ثعالبیؒ نے اپنی کتاب میں باقاعدہ ایک فصل کا نام رکھا ہے : "فصل فی الشیء یأتی بلفظ المفعول مرۃ، و بلفظ الفاعل مرۃ، والمعنیٰ واحد" اور اس میں «مکان عامر و معمور»، «آھل و ماھول» اور دیگر کئی مثالیں ذکر کی ہیں۔ [١٦]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
☜☜ امام رازیؒ سورۂ بنی اسرائیل، آیت نمبر ٤٥ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :
”قالَ الأخْفَشُ: المَسْتُورُ هَهُنا بِمَعْنى السّاتِرِ، فَإنَّ الفاعِلَ قَدْ يَجِيءُ بِلَفْظِ المَفْعُولِ كَما يُقالُ: إنَّكَ لَمَشْئُومٌ عَلَيْنا ومَيْمُونٌ وإنَّما هو شائِمٌ ويامِنٌ، لِأنَّهُ مِن قَوْلِهِمْ شَأَّمَهم ويَمَّنَهم“ [١٧]
عربی حوالہ جات دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں عربی قواعد کو اردو پر لاگو کرنے کا بہت شوق ہے، انھیں معلوم ہو جائے کہ یہ اطلاقات عربی میں بھی ہوتے ہیں۔ مفعول کو فاعل کے معنیٰ میں اور فاعل کو مفعول کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مرتبہ مخصوص معنوی اور تشکیلی پس منظر بھی کارفرما ہوتا ہے۔ بہرحال! عربی پسندوں کی یہ ضد اب سرد پڑ جانی چاہیے۔ اور انھیں یہ مان لینا چاہیے کہ اردو میں مشکور کو شاکر کا معنیٰ دینے میں کوئی ایسی قیامت نہیں نیز یہ کہ اسے مخصوص لوگوں کا تفرّد کہا جائے۔
دائمؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :
[١] ماہنامہ تحریک (دہلی) جولائی ١٩٦٤ء - بحوالہ : زبان اور قواعد، صفحہ ١٧ تا ١٨
[٢] مقالاتِ شبلیؒ، جلد دوم، صفحہ ٦٠ ۔ دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ
[٣] نقوشِ سلیمانی، صفحہ ٩٧، مطبوعہ معارف پریس، اعظم گڑھ
[٤] بحوالہ : دریائے لطافت مترجم، صفحہ نمبر ٣٥٣
[٥] [مقدمہ «دریائے لطافت» صفحہ ٠٤
[٦] [بحوالہ : لغاتِ مہرؔ، مہرؔ فوقی بدایونی، بزمِ ارتقائے ادب، کراچی، صفحہ ٣١١
[٧] نقوشِ سلیمانی، صفحہ ٩٨، مطبوعہ معارف پریس، اعظم گڑھ
[٨] مکاتیبِ ابو الکلام آزاد - جلد اول، صفحہ ٣٣
[٩] خطوطِ ماجدی - صفحہ ١٧٩
[١٠] ایضاً
[١١] زبان و قواعد، رشید حسن خاں - صفحہ ٥٥ - قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
[١٢] کلیاتِ میرؔ ، مرتبہ مولانا آسی - صفحہ ٧٣٣
[١٣] خاندانِ شمیم کی مرثیہ گوئی - صفحہ ٧٧، تدوین : ڈاکٹر عظیمؔ امروہوی، جامعہ نگر، نئی دہلی، طبع ٢٠٠٩ء
[١٤] زبان و قواعد، رشید حسن خاں - صفحہ ٥٦ - قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
[١٥] المزھر فی علوم اللغۃ و انواعھا از امام سیاطیؒ - جلد دوم، صفحہ ٨٩
[١٦] "فقہ اللغۃ و اسرار العربیۃ، امام ثعالبی - صفحہ ٤٢١
[١٧] التفسير الکبیر للإمام فخر الدين الرازیؒ - تفسیرِ سورۂ بنی اسرائیل، آیت ٤٥
علم قافیہ
پروفیسرحمید اللہ شاہ ہاشمی
تمہید
قافیے، قفو بہ معنے پیروی کرنے کے نکلا ہے، جس کے لغوی معنی “ پیچھے آنے والے“ کے ہیں۔ بقول اخفش قافیہ “ شعر کا آخری کلمہ “ ہے۔ لیکن یہ تعریف جامع نہیں۔ سکاکی کے نزدیک ساکن مقدم سے پہلا حرف مع حرکت قافیہ کہلاتا ہے۔ خلیل کی تعریف یوں ہے۔ “ شعر میں سب سے آخری ساکن سے پہلے جو ساکن آئے اس کے ماقبل متحرک سے آخر تک سب قافیہ ہے“ ۔ جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے یہ تعریف صحیح ہے لیکن ہماری زبان کے معاملے میں یہ درست نہیں بیٹھتی۔ اردو میں قافیہ ان حروف اور حرکات کا مجموعہ ہے۔ جوالفاظ کےساتھ غیرمستقیل طور پرشعر یا مصرعے کے آخر میں باربار آئے۔ یہ مجموعہ کبھی کبھی مہمل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا کچھ مضائقہ نہیں بالعموم اس پورے لفظ کوجس میں یہ مجموعہ آتا ہے قافیہ کہہ دیتے ہیں۔ چونکہ قافیہ ابیات کے آخر میں واقع ہوتا ہے یا ایک قافیہ دوسرے قافیہ کے پیچھے آتا ہے لہذا اس نام سے موسوم ہوا۔
ہمارے نزدیک قافیہ کی واضع ترتعریف یہ ہے کہ قافیہ وہ مجموعہ ء حروف و حرکات ہے جو اواخرابیات میں دو یا زیادہ لفظوں کی صورت میں بطور وجوب یا استحسان مقرر لایا جاتا ہے۔
قافیے کے بعد جو حرف، کلمہ یا کلمات مستقل طور پر باربار آئیں انہیں ردیف کہتے ہیں۔
ั ہوئے حاضر تو متورم تھے پاؤں، خون جاری تھا
نبی کا دیدہ ہمدرد وقف اشک باری تھا
ั دل کاخوں ہونے کا غم کیا اب سے تھا
سینہ کو بھی، سخت ماتم کب سے تھا
پہلے شعر میں “ تھا “ ردیف ہے اور “ جاری“ “ باری “ قافیے ہیں ۔ دوسرے شعر میں “ سے تھا “ ردیف ہے اور “ اب“ کب “ قوافی۔
غزل اور قصیدے میں قافیہ، مطلع کے دونوں مصرعوں کے آخر میں آتاہے۔ مثنوی کے ہرمصرعے کے آخر اور قطعہ کے مصرع ثانی کے آخر میں۔ غزل اور قصیدے کے باقی اشعار ( ماسوائے مطلع ) میں بھی مصرع ثانی کے آخر میں آتا ہے۔
[hr]
ั اختلاف کی تین صورتیں ہیں ۔ ( اول ) معنی اور الفاظ مختلف ہوں مثلا درد اور زرد ۔ ( دوم ) الفاظ وہی ہیں، صرف معنی میں اختلاف ہو مثلا باز بمعنی پرندہ شکاری اور بمعنی پھر۔ ( سوم ) صرف لفظی اختلاف ہو مثلا اطراف اور اکناف​
‏اپریل 17, 2008
تفسیر
تفسیر
محفلین
حروفِ قافیہ؛
[line]
قافیے میں حرکات اور حروف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جن کا ہرقافیے میں آنا ضروری ہو جیسے “ لایا “ اور “ آیا “ میں آخر کا “ الف “ اور اس سے پہلے کی “ زبر“ یا “ نون “ اور “ زبر“۔
دوسرے وہ حرف اور حرکات جن کا باربار قافیے میں لانا ضروری نہ ہو۔ یعنی اگر انہیں بار بار لایا جائے تو قافیہ خوبصورت معلوم ہوں اور نہ لایا جائے تو عیب واقع نہ ہو جیسے “ لایا “ اور “ آیا “ یا “ پایا “ اور “ کھایا “ میں “ ی “ اور اس سے پہلے کا “ الف “ بار بار آئے ہیں تو یہ قافیے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن “ صحرا “ کو اگر ان الفاظ کا ہم قافیہ قرار دیا جائے تو بھی درست ہے۔
قافیے کا آخری ั حرف روی کہلاتا ہے۔ اس سے پہلے جو حرف یا حروف ساکن ہوں گے۔ وہ اور ان سے پہلے کی حرکت ہرقافیے میں بار بار لانی پڑے گی۔ مثلا “ حُور“ کا قافیہ “ نُور“ اور “طور“ صحیح ہے لیکن “ اور “ غلط ہے۔اس لئے کہ “ ر“ حرفِ روی ہے۔ اس سے پہلےحرف واؤ ساکن ہے اور اس سے پہلے “ پیش“ ہے نہ کہ “ زبر“ ۔ پس اگر “ پیش“ کی بجائے “ زبر“ لائیں گے تو قافیہ غلط ہوجائے گا۔
“ تخت“ کا قافیہ “ سخت“ اور “بخت“ صحیح ہے لیکن “ وقت “ غلط ہے۔اس لئے کہ “ وقت “ میں “ ت “ سے پہلے “ ق “ ہے اور اوپر کے قافیوں میں “ ت “ سے پہلے “ خ “ ہے۔
روی وہ حرف ہے جو ہرایک قافیہ میں مکرّر آتا ہے اور اسی کے نام سے قافیہ موسم ہوتا ہے۔ جیسے دل، بگل کا لام۔
روی کی اقسام؛
روی کی دو قسمیں ہیں :
( 1 ) مقیّد
( 2 ) مطلق
1 ۔ روی مقیّد؛
روی ساکن کو کہتے ہیں جیسے کار اور یار کی “ ر“
2 ۔ روی مطلق ؛ وہ روی متحرک ہے جس کے ساتھ وصل ملا ہو جیسے کارم یا رم کی “ ر “ ۔
روی قافیے کی بنیاد ہے۔ اس سے پہلے چار حروف لائے جاسکتے ہیں انہیں حروف اصلی کہتے ہیں۔ قافیے کے بعد بھی چار حرف آسکتے ہیں۔ یہ وصلی کہلاتے ہیں۔ لیکن ان سب حروف کا جمع ہونا لازم نہیں۔ صرف حرف روی کا لانا ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر حرفِ روی نہ ہو تو قافیے کی تحقیق اور تمیز مشکل ہے۔ جب قافیے کا مدار صرف روی پر ہو تو وہ روی مجرّد کہلاتی ہے۔
حرفِ روی کے بعد جو حرف یا حروف آتے ہیں ان کا بھی ہرقافیے میں لانا اسی طرح ضروری ہے جس طرح ماقبلِ روی کے ساکنوں کا یعنی اگر حرف روی سے پہلے ساکن ( ایک یا زیادہ ) آجائیں تو جس طرح ان کی تکرار لازم ہے اسی طرح حروف کے بعد اگر کوئی حرف یا حروف باندھے جائیں تو ان کا باربار لانا ضروری ہے۔
اگر حرفِ روی سے پہلے کوئی حرف ساکن نہ ہو ( یعنی ) اس سے پہلے کوئی محترک حرف ہو۔ تو صرف حرف روی اور اس سے پہلے کی حرکت کا بار بار لانا ضروری ہے۔ مثلا “ جگر “ کے قوافی “ نظر“ ، “ قمر“، “ اثر“ ، “ گزر“ اور “ خبر“ ہوں گے۔
[line]
ั روی “روا“ سے نکلا ہے اور لغت میں روا اس رسی کو کہتے ہیں جس سے اونٹ پر اسباب باندھا جاتا ہے۔ ​
‏اپریل 17, 2008
پسندیدہ پسندیدہ × 1
تفسیر
تفسیر
محفلین
قافیہ کے اصلی حروف
[line]
اہل عجم نے قافیہ کے آٹھ حروف قرار دیئے ہیں چار قبل اور چار بعد از روی۔
قبل از روی مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ تاسیس ؛ (لغوی معنی “ بنیاد رکھنا“) اصطلاح میں تاسیس وہ الف ساکن ہے جو روی سے پہلے آئے اور حروف روی اور اس الف کے درمیان ایک حرف بطور واسطہ کے واقع ہو۔ جیسے شامل اور کامل کا الف۔
ہر طرف غُل اِدھر آپیار کے قابل قاتل
کہیں ہے ہے کہیں اُف اُف کہیں قاتل قاتل
اس شعر میں قابل اور قاتل کا “ ل“ تو روی ہے اور الف تاسیس
نوٹ :
تاسیس کا لانا ہر قافیہ میں لازمی نہیں اگر مطلح میں عامل اور شامل قوافی لائے گئے ہوں تو پھر “دل“ اور “مکمل“ کو قوافی بنانا جائز نہیں ہوگااور مطلح میں “قاتل“ اور “بسمل“ قوافی آئے ہوں تو بعد کے شعروں میں تاسیس کی پابندی ضروری نہیں
2۔ دخیل: ( لغوی معنی بیج میں آنے والا ) اصطلاح میں دخیل وہ حرف متحرک ہے جو تاسیس اور روی کے درمیان آئے۔ مثلا مندرجہ بالا شعر میں “قابل“ کی “ب“ اور “قاتل“ کی “ت“ یا مثلاً “کامل“ اور “شامل“ میں “م“ ۔
نوٹ :
یہ ضروری نہیں کہ ہر قافیہ میں حرف دخیل بار بار لایا جائے۔ یعنی “ کابل“ کے قوافی لازماً “عامل“ اور “شامل“ ہی سمجھے جائیں بلکہ “ساحل“ اور “باطل“ بھی اس کے قوافی ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر مطلح میں حرفِ دخیل کی تکرار واقع ہو تو پھر یہ تکرار تمام اشعار میں لازم ہوگی۔
3۔ رِدف ؛ ( لغوی معنی کسی کے پیچھے پیچھے آنا ) اصطلاح میں رِدف وہ حرف مدّہ ہے جو روی سے پہلے بلا فاصلہ آئے۔ مثلا مال ، حور وغیرہ۔
الف کی مثال :
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
صبا نے مارا طمانچہ منہ اس کا لال کیا
اس شعر میں “ جمال “ اور “ لال “ کا “ ل“ تو حرف روی ہے اور اس سے متصل “ الف “ رِدف
“ ی“ کی مثال:
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
اس شعر میں “ تاخیر“ اور “ عناں گیر“ کی “ ر “ حرف روی ہے اس سے متصل “ ی “ رِدف
واؤ کی مثال:
ہے حرفِ خامہ دلِ زدہ حسنِ قبول کا
یعنی خیال سر میں ہے نعتِ رسول کا
اس شعر میں “ قبول “ اور “ رسول “ کا “ ل“ حرف روی ہے اور اس سے پہلے “ واؤ “ رِدف۔
__________
(١) حرف مدہ یہ ہیں (ا) الف ساکم ماقبل مفتوح مثلاً “ بہار“ اور “ بخار“ میں۔ (٢) یائے ساکن ماقبل مکسور مثلا “ اسیر“ اور “ امیر“ اور (٣ ) واؤ ساکن ماقبل مضموم مثلاً “ سرور “ اور نفور “ میں
_________
اگر حرفِ روی اور حرفِ مدّہ کے درمیان کے حرفِ ساکن بطور واسطہ واقع ہو تو وہ حرفِ ساکن “ رِدف زائد“ کہلاتا ہے۔ جیسے بانٹ اور چھانٹ میں “ نون “ دوست اور پوست میں “ س “۔ جس رِدف میں رِدف زائد آئے اسے رِدف اصلی کہتے ہیں اور جس میں رِدف زائد نہ آئے وہ رِدف علی الاطلاق کہلاتی ہے۔
“ ردف زائد کے لئے یہ چھے حف مخصوص ہیں ش۔ر۔ف۔خ۔ن ان کا مجموعہ “ شرف سخن“ بنتا ہے۔ جیسے بہ آسانی یاد رکھا جاسکتا ہے۔
خواجہ نصیر الدین محققِ طوسی نے معیارالا اشعار میں “ رِدف زائد “ کو “ روی مضاعف“ کا نام دیا ہے مگر عام طور پر ردف زائد ہی مستعمل ہے۔
نوٹ :
1۔ شعرائے عرب و عجم نے رِدف کے اختلاف کو جائز رکھا ہے۔ جیسے وجود کا قافیہ “وعید“ لیکن اردو میں اختلاف ردف کسی طرح بھی جائز نہیں ۔
2۔ قافیے کا مدار تلفظ پر ہے کتابت پر نہیں ۔ پس واو معدولہ کو قافیے میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ یعنی “ خواب“ کا قافیہ “ ماب“ اور “خور“ کا قافیہ “ دُر “ ہوسکتا ہے۔
3۔ قید ( لغوی معنی بیڑی ، کتاب کا شیرازہ، یا شکنجہ ) اصطلاح میں حروفِ مدّہ کے سوا اور کوئی حرفِ ساکن حرفِ روی سے پہلے بلا فاصلہ آئے تو اسے قید کہتے ہیں مثلا “ رزم“ اور “ بزم “ کی “ ز“ جیسے “ درد “ اور “ فرد“ میں ر ۔
اگر حرفِ ردف سے پہلے کی حرکت موافق نہ ہو ( یعنی “ الف“ سے پہلے “ زبر“ اور“ ی“ سے پہلے “ زیر“ اور “ واؤ“ سے پہلے “ پیش“ نہ ہو) تو حرف رِدف نہیں بلکہ قید سمجھا جائے گا جیسے جَور اور غَور میں واؤ اور خَبر اور غَیر میں “ ی“ ۔
عربی میں حرفِ قید متعدّد ہیں لیکن اہل عجم نے دس مقرر کئے ہیں؛ ب ، خ، ر، ز، س، ش، غ، ف، ن، اور ہ ۔ ان حرف کو مختلف اشعار میں نظم کیا گیا ہے۔
1۔ در عجم واں وہ حروفِ قید یعنی با و خا
را و زا و سین و شین و فا و نون و ہا
2۔ با و خا و سین و شین و را و زا
غین و فا و نون و ہا گفتم ترا
3۔ با و خا، را و زا ، سین و شین
غین و فا و نون و ہا می واں یقین
بعض اہل فن کے نزدیک فارسی میں حرفِ قید بارہ ہیں
حرفِ قید اندر زبانِ فارسی
وہ دو بالا ہست بشنو اے فتا
با و خا، را و زا ، سین و شین
غین و فا و نون و واؤ ، ہا و یا
مگر اردو میں اس کی تعداد مقرر نہیں کی گئ۔

‏اپریل 17, 2008
پسندیدہ پسندیدہ × 1
تفسیر
تفسیر
محفلین
قافیہ کےوصلی حروف
[line]
بعداز روی یہ ہیں۔
(1 ) وصل : ( لغومعنی“ ملنا“ ) اصطلاع میں وصل وہ حرف ہے جو روی کے بعد بلا فاصلے آئے جیسے“ موڑا “ اور“ چھوڑا “ میں “ الف “ ، “ حیرانی“ اور“ ویرانی“ میں “ ی“ : جیسے بندہ اور خندہ کی ہ ۔
نوٹ: روی اور وصل میں یہ فرق ہے کہ وصل کوحذف کرنےسے کلمہ بامعنی رہتا ہے لیکن روی کے ہٹانے سےمہمل ہوجاتاہے۔ مثلا اوپر کی مثال میں “ ڑ“ حرفِ روی ہے، اس کوحذف کرنے سے کلمہ بےمعنی ہوجائےگا۔ لیکن “ الف“ ( حرفِ وصل ) کے دور کرنےسے بامعنی رہےگا۔ دوسری مثال میں “ ن“ حرفِ روی ہے۔ اس کےدور کرنےسے کلمہ ، کلمہ نہیں رہےگا۔ لیکن “ ی“ ( حرفِ وصل ) کے حذف کرنے کے باوجود کلمہ رہے گا۔
فارسی میں وصل کے بھی دس حرف مقرر کئےگئے ہیں؛ ا، د، ب، ت، س، م، ک، ن، ہ ، ش ۔ ان کو یوں نظم کیاگیا ہے۔
وہ بود وصل فارسی گویا
الف و دال و کاف و ہا و یا
حرفِ جمع و اضافت و مصدر
حرف تصغیر و رابطہ است دگر
دیگر؛
ہم الف ہم دال و تا و یا و سین
میم و کاف و نون و ہا و حروف شین
اردو میں اضافت اور مصدر کی شاید ہی کوئی مثال ہو، باقی قریب قریب سب استعمال ہوتےہیں۔
حرفِ وصل کےمتعلق یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ خود توساکن ہوتا ہے لیکن روی کومتحرک بنادیتا ہے جب روی متحرک باقی ہے تواسےمطلق کہتے ہیں ورنہ وہ مقید کہلاتی ہے۔
(2) خروج : ( لُغوی معنی“ باہر آنا“ ) اصطلاع میں خروج وہ حرف ہے جو وصل کے بعد بلا فاصلہ آئے۔ جیسے“ جانا“ اور “ آن “ میں “ نون“ کے بعد کا “ الف “۔
(“ نون “حروفِ وصل ہے اور اس سے پہلے کا “ الف“ حرفِ روی ) ۔
(3) مزید : ( لُغوی معنی “ زیادہ کیا ہوا“ ) اصطلاع میں مزید وہ حرف ہے جوخروج کے بعد بلا فاصلہ آئے۔ جیسے“ بچائے“ اور “ مچائے“ میں “ ئے “۔
( “ چ“ حرفِ روی ہے اور“ الف “ حرفِ وصل اور “ ہمزہ “ حرفِ خروج ہے ) ۔
(4) نائرہ : ( لُغوی معنی “ دور بھاگنےوالا“ ) اصطلاع میں نائرہ وہ حرف ہے جو مزید کےبعد بلا فاصلہ آئے۔ جیسے“ جگائے گا“ اور “ گائے گا“ میں آخری “ الف“ ۔
( پہلے“ گ“ کے بعد کا “ الف“ حرفِ روی ہے اور “ ہمزہ “ حرفِ وصل ہے اور “ ے“ حرف خروج اور “ گ “ حرف مزید ہے ) ۔
نوٹ؛ نائرہ کےبعد جوحرف آئےاسے ردیف میں شمار کریں گے۔
حروفِ قافیہ کویاد رکھنے کی غرض سےیوں نظم کیا گیا؛
قافیہ دراصل یک حروف است و ہشت آں راطبع
چار پیش و چار پس این مرکز آں ہا دائرہ
حرف تاسیس و دخیل و رِدف و قید آنگہ روی
بعد ازاں وصل وخروج است و مزید و نائرہ
دیگر نہ حرف کہ درقافیہ گردد ظاہر
باید کہ شوی زنام ایشاں ماہر
حرف تاسیس و دخیل و قید و رِدف است و روی
وصل است و خروج است و مزید و نائرہ
دیگر؛
قافیہ ہے اصل میں ایک، آٹھ شاخیں اس کی ہیں
چار آگےچار پیچھے یوں بنا ایک دائرہ
حرف تاسیس و دخیل و رِدف و قید اور پھر روی
بعد ازاں وصل و خروج اور پھر مزید و نائرہ
دیگر؛
حرف نو قافیہ کےہیں ظاہر
چار قبل روی ہیں اورچار آخر
پہلےتاسیس و رِدف و قید و دخیل
یاد رکھ اُن کو تو اگر ہے عقیل
بعد ازاں وصل پھرخروج و مزید
پھراس کےنائرہ بھی ہے مزید
چار پہلے روی کے ہیں اصلی
بعد کے چارحرف ہیں وصلی
یہ بات ہمیشہ مدنظر رہنی چاہیے کہ روی اور اس کے بعد جتنے حروفِ قافیہ ہیں ان کا اختلاف جائز نہیں، رِدف اور قید کو بھی نہیں بدل سکتے، البتہ تاسیس اور دخیل میں اختلاف سوسکتا ہے۔
اردو کےشعرا کا خیال ہے کہ روی کے بعد جتنےحروف آتے ہیں وہ ردیف میں داخل ہیں خواہ وہ مستقیل کلمہ ہوں یا نہ ہوں۔ اس بنا پر اردو میں حروف قافیہ صرف تاسیس، دخیل، رِدف اور روی ہوں گے۔
بعض اہل فن کا خیال ہے کہ شعر کی بنیاد نغمے پر ہے اور نغمہ سماعت سےتعلق رکھتا ہے۔اس لئے قافیےمیں ہم آواز حروف ایک دوسرے کی جگہ لےسکتے ہیں۔ یعنی “پاس“ کا قافیہ “ خاص“ اور “ میراث “ بھی جائز ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔ صرف عربی ضمّمہ ( الٹا پیش ) ، فتحہ ( کھڑی زبر ) اور کسرہ ( کھڑی زیر ) نیز تنوین کی حد تک یہ اصول درست ہے یعنی “ وضو“ کا قافیہ “ سلہ “ ، “ مالا “ کا قافیہ اعلیٰ ، “ آ “ کا قابیہ “ سہی “ اور “ فوراً “ کا قافیہ “ روشن“ جائز ہے۔
ہماری زبان میں بعض قوافی ایسے بھی ۔۔۔۔۔ آئے ہیں جن کےحروف نہ تو رِدف اور قید کی تعریف میں آتےہیں۔ اور نا ہی انہیں تاسیس یا دخیل کہا جاسکتا ہے مثلاً رحمت زحمت ، زینت طینت، حرکت برکت، کہیں نہیں، یہیں وہیں ۔مفضور فغفور وغیرہ میں حروفِ روی سے پہلے کےحروف۔ ان کے لیےبھی کچھ نام تجویز کرنے کی ضرورت ہے۔

‏اپریل 17, 2008
پسندیدہ پسندیدہ × 1
تفسیر
تفسیر
محفلین
حرکاتِ قافیہ
[line]
قافیہ کی حرکتیں ( زیر، زبر، پیش ) چھ طرح سے آتے ہیں ۔مختلف حالتوں میں ان کے نام یہ ہیں۔
1۔ رس
2۔ اشباع
3۔ حذو
4۔ توجیہہ
5۔ مجریٰ اور
6۔ نفاذ
قافیہ راشش بود حرکت بقول او ستاؤ
رس و اشاعست و مجری حذو و توجہہ و نِفاؤ
1۔ رس : ( لغوی معنی “ ابتدا کرنا “ ) وہ زبر ہے جو الف تاسیس سے پہلے آتی ہے۔ جیسے “ ظَاہر“ اور “ مَاہر“ میں “ ظ “ اور “ م“ کی زبر۔
2 ۔ اشباع : ( اسیر کرنا ) حرفِ دخیل کی حرکت کا نام ہے ( حرکت کا نام ہے ( حرکت تینوں میں سے کوئی بھی ہو ) مثلا “ چادر“ اور“ نادر“ میں “ دال“ کی زبر ،“ خاطر“ اور “ شاطر“ میں “ ط“ کی زیر، “ تغافُل“ اور تجاہُل“ میں “ ف“ اور “ہ“ کی پیش۔
نوٹ: اختلافِ اشباع جائز نہیں۔ یعنی “ عالَم “ اور “ عالِم“ ہم قافیہ نہیں ہوسکتے لیکن جب حرف روی وصل سے مل کر متحرک ہوجائے تو جائز ہے۔مثلاً برابری اور شاطری میں ایک جگہ “ ر“ سے پہلےحرف ( ب) پر زبر ہے اور دوسری جگہ ( ط) کے نیچے زیر ۔
3 ۔حذو : ( دو چیزوں کا برابر کرنا) رِدف اور قید سےپہلے جوحرکت ہو اسےحذو کہتےہیں جیسے“ غبار “ اور“ شمار“ میں “ ب“ اور“ م “ کی زبر“ دور“ اور “ نور“ میں “ د“ اور “ن“ کی پیش ، “ وزیر“ اور “ امیر“ میں “ ز “ اور “ م“ کی زیر۔
نوٹ: اختلافِ حذو رِدف میں توقطعاً جائزنہیں یعنی “دلیل“ اور طُفیل “ ہم قافیہ نہیں ہوسکتے۔ البتہ حرف روی وصل سے مل کر متحرک ہوجائے تو بعض کے نزدیک قید میں جائز ہے مثلا ، “ شُستہ“ اور “ رَستہ “ میں “ ش“ پر پیش سے اور “ ر“ پر زبر۔
4 ۔ توجہہ : ( منہ پھرنا ) اس روی ساکن کے ماقبل کی حرکت کا نام ہے جس سے پہلے کوئی اور حرفِ قافیہ نہ ہو جیسے “علم“ اور “ قلم“ کے “ ل“ کی زبر۔
نوٹ: اختلاف توجیہہ جائز نہیں “ یعنی “ ہم “ اور“ تُم“ ہم قافیہ نہیں ہوسکتے۔ البتہ جب حرف روی وصل سے مل کر متحرک ہوجائےتوجائز ہے۔ جیسے“ ہٹانا “ اور “ مٹانا“ میں “ہ“ پر زبر ہے اور “ م“ کے نیچے زیر ۔ لیکن ایسی حالت میں یہ حرکت ماقبل روی کہلاتی ہے۔
5 ۔ مجریٰ : ( جاری ہونے کی جگہ) متحرک حرف روی کی حرکت کا نام ہے۔ جیسے “حیرانی“ اور “ پیشانی“ میں “ن“ کی زیر۔
نوٹ: حرکتِ مجریٰ میں اختلاف جائز نہیں ہے۔
6 ۔ نفاذ : ( فرمان کا جاری ہونا) حرفِ وصل کی حرکت کا نام ہے۔ مثلا “ جائیے “ اور “کھائیے“ میں ہمزہ کی زیر۔
نوٹ: خروج اور نائرہ کی حرکات بھی نفاذ کہلاتی ہیں۔ نفاذ کے اختلاف کی نہ اجازت ہوتی ہے اور نہ گنجائش۔

‏اپریل 17, 2008
پسندیدہ پسندیدہ × 2
تفسیر
تفسیر
محفلین
عیوبِ قافیہ
[line]
عیوبِ قافیہ چار ہیں۔
بنزو عجم عیب چار است و آنہا
سناد است و اقوا و اکفا ایطا
قافیہ میں عیب کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔
(1) اِکفا :؛ حروف روی میں اختلاف۔ مثلا “ کتاب“ کا قافیہ “ آپ“ لائیں۔ صلاح و تباہ ۔
(2) غلُّو : حرفِ ایک جگہ ساکن ہو اور دوسری جگہ متحرک مثلاً
نہ پوچھ مجھ سے کہ رکھتا ہے اضطراب جگر
نہیں ہے مجھ کو خبر دل سے لے کے تا بہ جگر
(3) سِناد : اختلافِ رِدُف قید کو کہتے ہیں مثلا گوشت اور پوست، نَار اور نُور، صبر اور قہر، زماں و زمین وغیرہ۔
(4) اقوا : اختلاف حذو اور اختلافِ توجیہہ کا نام ہے۔ مثلاً طوُل اور ہول، ست اور مَسُت، جَست، جُست۔ وغیرہ۔
(5 ) تعدّی : حرف وصل ایک جگہ ساکن ہو اور دوسری جگہ متحرک، اردو میں اس عیب کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی البتہ عربی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔
( 6 ) اِیطا : مطلع میں قافیہ کی تکرار کو کہتے ہیں اس کا دوسرا نام قافیہ شائگان ہے۔ اور اس کی دو قسمیں ہیں۔ ( 1) جلی اور ( 2 ) خفی۔
ایطائے جلی وہ ہے جس میں تکرار صاف ظاہر ہو مثلاً “ درد مند“ اور “ حاجت مند“ میں “ مند“ کی تکرار۔ گریاں و خنداں۔
ایطائے خفی وہ ہے کہ تکرار سریحی طور پر معلوم نہ ہوتی ہو مثلا “ دانا“ اور “ بینا“ میں الف کی تکرار ۔ آب و گلاب۔
( 7 ) قافیہ معمولہ : اس کی دو صورتیں ہیں۔ اگر کوئی لفظ اکیلا قافیہ نہ ہوسکےتو اس کے ساتھ دوسرا لفظ بڑھا کر قافیہ بنالیں۔ یہ قافیہ معمولہ ترکیبی کہلاتا ہے۔ مثلاً “ پروانہ ہوا“ ، “ دیوانہ ہوا“ وغیرہ قوافی ہوں تو “ اچھا نہ ہُوا“ بھی ان کے ساتھ لے آئیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک لفظ کے دو ٹکڑے کرکے پہلے کو داخل قافیہ کردیں اور دوسرے کو شریکِ ردیف مثلاً
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہُوا بُرا نہ ہوا
رہزنی ہے کہ دلستانی ہے
لے کے دل دلستاں روانہ ہوا
یہاں “ نہ ہوا“ ردیف تھی۔ضرورت شعری کی وجہ سے “روانہ “ باندھنا پڑا “ یعنی روانہ سے “ نہ“ کو کاٹ کر داخلِ ردیف کیا اس کو قافیہ معمولہ تخلیلی کہتے ہیں۔

‏اپریل 17, 2008
پسندیدہ پسندیدہ × 1
تفسیر
تفسیر
محفلین
اقسام قافیہ بہ اعتبارِ روی
[line]
حرفِ روی کےلحاظ سےقافیہ کی چھ قسمیں ہیں:
( ١ ) جس قافیےمیں حرفِ تاسیس ہوتا ہے اسےموسَس کہتے ہیں جیسے قابل اور جاہل۔
( ٢ ) جس قافیہ میں حرفِ دخیل ہوتا ہے اسےمدخول کہتےہیں جیسےماہراورطاہر۔
( ٣ ) جس قافیےمیں حرفِ ردف ہوتا ہے اسےمروّّف کہتےہیں۔ جیسے کمال اور زوال۔
( ٤ ) جس قافیہ میں حرفِ قید ہوتا ہے اسےمقیّد کہتے ہیں جیسے برف اور ظرف۔
( ٥ ) جس قافیہ میں صرف حرفِ وصل یا وصل اورخروج یا وصل، خروج اور مزید وصل، خروج، مزید اور نائرہ بھی ہوں اسے مصولہ کہتے ہیں۔
( ٦ ) جس قافیے میں روی کےعلاوہ اور کوئی حروف نہ ہواُسے مجرّد کہتے ہیں۔
نوٹ : موسَس، مدخول، مروف، مقیّد اور مجرّد سب کے سب قافیے کےاوصاف ہیں ان سب کا ایک ہی قافیےمیں آنا ضروری نہیں۔
اقسام قافیہ بہ اعتبارِ وزن
--------------------------------------------------------------------------------
وزن کےلحاظ سےقافیے کی پانچ قسمیں ہیں؛
( ١ ) مترادف : جس قافیے کےآخر میں دوساکن بلا فصل واقع ہوں مثلاً
ہنگامہ گرم، ہستیِ نا پائیدار کا
چشمک ہے برق کی کہ تُبسم شرار کا
( ٢ ) متواتر : جس قافیے کےآخر میں دوساکنوں کےدرمیان ایک متحرک واقع ہو مثلاً
ہیں باغ و بہار دونوں وقف دشمن کے لیے
چند کانٹے رہ گئے ہیں میرے دامن کے لیے
( ٣ ) متدارک : جس قافیے کے آخر میں دوساکنوں کے درمیان متحرک واقع ہوں مثلاً
کہاں وہ ہجر میں اگلا سا ولولہ دل کا
کہو کہ موت کرے آکے فیصلہ دل کا
( ٤ ) متراکب : جس قافیے کے آخر میں دوساکنوں کےدرمیان تین متحرک واقع ہوں۔
تیغ ابرو سےجو عذر نہ کرے
اس کی آئی ہے موت کیوں نہ کیوں نہ مرے
( ٥ ) متکاؤس : جس قافیے کےآخر میں دوساکنوں کےدرمیان چار متحرک واقع ہوں۔ اس قافیے کی مثالیں عربی توموجود ہیں لیکن اردو، فارسی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
مترادف، متواتر، متدارک میخواں
متراکب متکاوسِ لقب قافیہ واں

‏اپریل 17, 2008
تفسیر
تفسیر
محفلین
ردیف
[line]
لُغت میں ردیف اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو کسی کے پیچھے سوار ہو۔ اصطلاح میں ایک یا ایک سے زیادہ کلمے یا حروف مستقل کو جو قافیے کے بعد بار بار آئے ردیف کہتے ہیں۔ یہ اہل فارس کی اختراع ہے۔ قدیم عربی زبان میں اس کا وجود نہیں پایا جاتا البتہ اب عرب شعرا بھی ردیف لاتے ہیں۔
ردیف کا بصورت ِ لفظ یا الفاظ مستقل ہونا ضروری ہے مگر منعا بھی ایک ہونا لازم نہیں۔ مراد اس سے یہ کہ بلحاظ کتابت شکل ایک ہونی چاہئے۔ مثلاً
نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لئے
رہے نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری جو شامت آئی
آٹھا اور اُٹھ کے قدم نے پاسباں کے لئے
ان اشعار میں “ جان“ ، “ آسمان“ ، اور “ پاسبان “ قوافی ہیں اور “ کے لئے“ ردیف ۔ دوسرے شعر میں ردیف کے وہ معنی نہیں رہے جو پہلے دو دو مصروں میں ہیں۔
اگر ردیف قافیے سے پہلے آئے یا دو قافیوں کے درمیان واقعہ ہو تو ایسی ردیف کو حاجب کہتے ہیں
مثال اول
ملنا ہمارا ان کا تو کب جائے جائے ہے
البتہ آدمی سو کبھی جائے جائے ہے۔
مثال دوم
کہیں آنکھوں سے خوں ہوکے بہا
کہیں دل میں جنوں ہوکے رہا
ردیف کا تقابل فصحا کے نزدیک عیب ہے یعنی جو کلمہ ردیف ہو وہ پورا کلمہ ( سوائے مطلع کے) پہلے مصرع میں نہیں آنا چاہئے۔
اگر ہوتی رسائی عاشق مضطر کی قسمت میں
تو وہ اب تک پہونچ جاتا کبھی کا ان کی محفل میں
لیکن اگر ردیف کا کوئی جز پہلے مصرعے کے آخر میں آجائے تو وہ معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ مثلاً۔
دادِ جاں بازی ملے گی آپ سے امید ہے
آج جانباوں کا میلہ آپ کی محفل میں ہے۔
شعر میں ردیف کا ہونا لازمی نہیں ہے۔ صرف قافیہ کی پابندی لازم ہے۔ جس شعر میں ردیف ہو اس کو مروّف کہتے ہیں۔ردیف کے لئے کوئی خاص مقدار بھی مقرر نہیں ہوسکتاہے کہ ایک شعر صرف قافیے اور ردیف ہی پر مشتمل ہو۔

‏اپریل 17, 2008
تفسیر
تفسیر
محفلین
سرقاتِ شعری
کسی دوسرے شاعر کو بعینہ یا لفظی و معنوی ادل بدل سے اپنا کرلینا سرقہء شعری کہلاتا ہے۔
سرقات شعری کی دو قسمیں ہیں
(1) سرقہ ظاہر
(2) سرقہ غیرظاہر۔
سرقہ ظاہر کی قسمیں:
(الف) نسخ وانتحال
بعینہ دوسرے شاعر کےشعر کو اپنا کرلینا اور یہ بہت بڑا عیب ہے۔
(ب) مسخ و اغارہ
لفظی ادل بدل سے دوسرے شاعر کےشعر کو اپنا کرلینا۔ اگر دوسرے شعرکی ترتیب پہلے سے بہتر ہو تو سرقہ نہیں ترقی ہوتی ہے اور یہ جائز ہے ورنہ نہیں۔
(ج) المام سلخ
دوسرے شاعر کےشعر کا مضمون اپنے الفاظ میں ادا کرکے اپنا لینا۔
توارد۔ دو شاعروں کے شعر کا لفظی و معنوی اعتبار سے بلا اطلاع و ارادہ اتفاقاً یکساں ہونا۔ یہ سرقہ نہیں تیزی فکر کے باعث ایسا ہوتا ہے۔
سرقہ غیرظاہر کی قسمیں؛
سرقہ غیر ظاہرمعیوب نہیں بلکہ اگر اچھا تصرف ہے تو مستحسن سمجھا جاتا ہے۔
(1) دو شاعروں کےاشعار میں معنوی مشابہت کا ہونا۔
(2) ایک کےشعر میں دعویٰ خاص ہو اور دوسرے شعر میں عام۔
(3) کسی کےمضمون کو تصرف سے نقل کرنا۔
(4) دوسرے شعر کےمضمون کا پہلے شعرسےمتضاد و مخالف ہونا۔
(5) پہلےشعر کے مضمون میں مستحسن تصرف کرنا اور یہ بہت مستحسن ہے۔
نوٹ:
کسی خاص غرض میں شعرا کا اتفاق سرقہ نہیں کہلاتا ( جیسے شجاعت یا سخاوت وغیرہ سے کسی کی تعریف کرنا ) کیونکہ ایسی باتیں تمام لوگوں کی عقول و عادات میں مزکور ہوتی ہیں۔ البتہ اس غرض پر دلالت کرنے کے لئے جوتشبیہات اور استعارات و کنایت استعمال کئےجائیں ان میں سرقہ ہوسکتا ہے۔ مگر جو استعارات و تشبیہات نہایت مشہور ہیں جیسے شجاع کو اسد سے تشبیہ دینا اور سخی کو دریا سے وغیرہ وغیرہ ان میں سرقہ نہیں ہوتا۔
سرقہ شعری کے ذکر میں، میں نےمتداولہ رائےسے کسی قدر اختلاف کیا ہے۔ متداولہ رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شعر بجنسہ یا بتغیر الفاظ کسی دوسرے کلام میں پاتا جائے تواس کو سرقہ سمجھناچاہیے میں نےاس پر اتنا اصافہ کیا ہے کہ سرقہ اس وقت سمجھاجائے گا اگر اس دوسرے شاعر نےباوجود علم کے بدنیتی سے یعنی لوگوں پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ میرا شعر ہے وہ شعر بجنسہ یا اس کا مضمون بتغیر الفاظ چرایاہو۔ مثلا غالب کا مطلع ہے۔
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن بڑھ آئیں گے کیا
اور شاد لکھنوی کہتے ہیں
کوئی دم راحت جنوں کے ہاتھ پائیں گے کیا
زخم بھر جائیں گے تو ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا۔
اس میں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ شاد کو غالب کےشعر سے آگائی تھی تو یقیناً یہ سرقہ کی حد میں آتا ہے۔
البتہ اس قاعدے سے وہ اشعار متثنیٰ ہیں جن میں کوئی محاورہ یا مثل باندھی جائے۔ مثلاً سانپ نکل گیا اب لکیر پیٹا کرو ایک مثل ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ ایک زریں موقعہ ہاتھ سےجاتا رہا اب اس کی کوشش بیکار ہے اس مثل کو ان چار شاعروں نے باندھا ہے۔
ั خیالِ زلف دو تا میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹ کر
(شاہ نصیر دہلوی)
ั سانپ تو بھاگ گیا پیٹتے ہیں لوگ لکیر
خوب پوشیدہ کئے تم نے دکھا کر گیسو
( تمنا )
ั سردے دے مارو گیسوئے جاناں کی یاد میں
پیٹا کرو لکیر کو کالا نکل گیا
(رند)
ั دکھلا کے مانگ گیئسوں والا نکل گیا
پیٹا کرو لکیر کو کالا نکل گیا
( شاد لکھنوی)
ان میں کوئی شعر کسی دوسرے شعر کا سرقہ نہیں کہا جاسکتا ۔ کیونکہ ہر شاعر نےضرب المثل کو باندھاہے مگر تعب ہے کہ شاد ایسا استاد اور کہنہ مشق شاعر نے رند کا پورے کا پورا مصرعہ بلا کیسی تغیر و تبدیل کرکے اپنے کلام میں شامل کرلیا۔
تضمین و اقتباس؛
تعریف: دوسرے کے کلام کو شامل کرلینا۔ اس کی دوصورتیں ہیں۔
(1) دوسرے کا کلام کو اپنے کلام میں اس طرح شامل کرلینا کہ یہ معلوم ہو کہ یہ دوسرے کا کلام نہیں۔
(2 ) دوسرے کے کلام کو اپنے کلام میں اس طرح شامل کرنا کہ یہ نہ معلوم ہو کہ یہ اسی کا کلام ہے بلکہ اشاراً بتادینا کہ یہ دوسرے کا کلام ہے۔ مثلاً
درد نےگویا کہاتھا یہ انہیں کے واسطے
اپنے اپنے بوریئے پرجوگدا تھا شیرتھا
ہدایت؛ جب تک باوثوق ذرائع سے یہ علم نہ ہو کہ سرقہ کیا گیا ہے اس وقت تک کسی شعر پر سرقہ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

اختتام۔
‏اپریل 17, 2008
پسندیدہ پسندیدہ × 3
محمد وارث
محمد وارث
لائبریرین
بہت معلوماتی اور خوبصورت مضمون ہے تفسیر صاحب، بہت شکریہ شیئر کرنے کیلیئے۔
حضور آپ کی کمی بہت معلوم ہوتی ہے، اور خاص طور پر آج کل کہ محفل پر ہر طرف شعر و شاعری کے ہی چرچے ہیں۔ اگر ہم اپنی نالائقی کی وجہ سے "دانش کدے" میں حاضر نہیں آ سکتے تو بندوہ پرور آپ ہی محفلِ یاراں میں تشریف لے آیا کریں۔ :)
‏اپریل 17, 2008
پسندیدہ پسندیدہ × 3
F@rzana
F@rzana
محفلین
تفسیر بھائی جزاک اللہ، بڑا معلوماتی اور مقصدی مضمون ہے،کافی نکات پیش کیئے ہیں اور اچھی طرح تشریح دی ہے بہتوں کے لیئے مفید رہے گا اگر سمجھ کر پڑھیں تو !
ماشاءاللہ بہت منجھے ہوئے استاد ہیں آپ۔
‏اپریل 17, 2008
پسندیدہ پسندیدہ × 2
تفسیر
تفسیر
محفلین
محمد وارث نے کہا: ↑
بہت معلوماتی اور خوبصورت مضمون ہے تفسیر صاحب، بہت شکریہ شیئر کرنے کیلیئے۔
حضور آپ کی کمی بہت معلوم ہوتی ہے، اور خاص طور پر آج کل کہ محفل پر ہر طرف شعر و شاعری کے ہی چرچے ہیں۔ اگر ہم اپنی نالائقی کی وجہ سے "دانش کدے" میں حاضر نہیں آ سکتے تو بندوہ پرور آپ ہی محفلِ یاراں میں تشریف لے آیا کریں۔ :)
مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔
اب آپ مجھے شرمندہ نہ کریں۔۔۔ میں آتا تو ہوں۔
آجکل میں ترجمہ کرنے کے موڈ میں ہوں اور کئی پراجیکٹ پر ایک ساتھ کام کررہا ہوں اس لیے مصروف رہتا ہوں۔ ویسے دانشکدہِ تفسیر " گفتگو کا فورم" نہیں ہے۔ اب صرف میرا ذاتی مکتب ہے  :) ہاں پڑھنے کے لیے آنے میں کیا حرج ہے؟
‏اپریل 18, 2008
پسندیدہ پسندیدہ × 3
ابن رضا
ابن رضا
لائبریرین
عمده ترین است.......
ٹیگ ساقی۔
‏مارچ 13, 2014
دوستانہ دوستانہ × 1  متفق متفق × 1
الف عین
الف عین
لا

No comments: