Popular Posts

Sunday, September 20, 2020

اضافت مقلوب

ُاِضافتِ مقلوب اور ہماری نافہمی
- کالم نگار - January 3, 2020
   

Print Friendly, PDF & Email
پروفیسر غازی علم الدین
زبان، انسانی شخصیت میں ایک اہم مظہر کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے(۱)۔ قوتِ تکلم، انسانی شرف کا ہمیشہ ایک امتیازی وصف رہا ہے۔ اسلام ہمہ گیر راہ نمائی کا مدّعی ہے، اس لیے قوتِ اظہار کے اس شرف پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ الفاظ ہماری زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام میں پہلی وحی کے نزول کی ابتدا ہی’اقرا‘ سے ہوتی ہے، یعنی’پڑھیں‘(۲)۔ اس وحی میں جو پڑھنے کی ہدایت ہے، وہ یقیناً الفاظ سے متعلق ہے۔ زندہ قوموں کی روایت ہے کہ وہ اپنے زبان و بیان پر فخر کرتی ہیں۔ ہر متحرک قوم اپنے لسانی سرمائے کو زندہ رکھنے میں مصروف رہتی ہے۔ تلفظ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں متکلم کی، کسی زبان میں استعداد اور مہارت کا عکس نظر آتا ہے۔ صحتِ تلفظ، اصلاحِ زبان کا اہم پہلو ہے مگر بدقسمتی سے لسانی انتشار اور بگاڑ ختم ہونے کے بجائے آئے دن فزوں تر ہورہا ہے۔ ذمہ دار اور پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے لکھنے، بولنے، پڑھنے اور پڑھانے میں قومی زبان کی تخریب اس سے محبت کرنے والوں پر شاق گزرتی ہے۔ تخریبِ زبان کا یہ عمل جب سرکاری اور نیم سرکاری نشریاتی ادارے تواتر سے دہراتے ہیں تو اصلاحِ احوال کی ساری امیدیں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ آئے روز دہرائی جانے والی غلطیوں میں ’اضافت‘ کے استعمال کے ضمن میں کی جانے والی غلطیاں بھی ہیں۔ سوشل میڈیا نے اضافت کی غلطیوں کی تکرار کا اس قدر غدر مچا رکھا ہے کہ الامان والحفیظ۔ لکھنے میں کسرۂ اضافت کی جگہ ’’ے‘‘ کا اضافہ رواج پکڑ چکا ہے۔ شیرے پہاڑ، فخرے بنگال، والیے لاہور، شاہے مدینہ، کاشانہ اے نبوت، نبی اے رحمت، دورے حاضر اور اس طرح کے دیگر انتشارات میرے جیسے کمزور طالبِ علم پر انقباض طاری کرتے رہتے ہیں۔
اضافت کا معنی و مفہوم
اضافت کا لغوی معنی تو تعلق، لگاؤ اور نسبت ہے لیکن قواعدِ نحو کی رو سے اضافت، دو یا دو سے زائد افراد یا چیزوں کی باہمی نسبت اور تعلق کو کہا جاتا ہے۔ دو اسم جب آپس میں حرفِ اضافت کی مدد سے ملتے ہیں تو اُن میں ایک تعلق پیدا ہوجاتا ہے، اس تعلق کو اضافت کہتے ہیں۔ جس اسم کا تعلق ظاہر کیا جائے اُسے مضاف اور جس سے تعلق اور نسبت قائم ہو، اُسے مضاف الیہ کہتے ہیں۔ دونوں کا مجموعہ مرکب اضافی کہلاتا ہے۔ اُردو میں مضاف الیہ پہلے اور مضاف بعد میں ہوتا ہے، مثلاً زید کا قلم۔ اس ترکیب میں زید مضاف الیہ ہے، ’کا‘ حرفِ اضافت اور ’ قلم ‘مضاف۔ بعض صورتوں میں ترکیب اس طرح بھی ہوجاتی ہے؛ ’قلم زید کا‘، ’بیٹا زید کا‘ وغیرہ(۳) یعنی پہلے مضاف پھر مضاف الیہ، اس کے بعد حرفِ اضافت۔ حرفِ اضافت، ہر دو صورت میں مضاف الیہ کے بعد ہی آئے گا۔
اُردو میں مستعمل فارسی قاعدے کے مطابق، مضاف مقدم ہوتا ہے اور کسرۂ اضافت اسے مضاف الیہ سے ملاتا ہے جیسے ’دردِ دل‘ یعنی دل کا درد، ’خانۂ خدا‘ یعنی خدا کا گھر، ’شدتِ غم‘ یعنی غم کی شدت وغیرہ۔ جن لفظوں کے آخر میں یاے ساکن ہوتی ہے، اضافت کی صورت میں اس ’’ی‘‘ کے نیچے زیر آئے گی نہ کہ ہمزہ مثلاً: مرضیٔ خدا، رعنائیٔ خیال اور آزادیٔ وطن کی تراکیب ہمزہ کے اضافے کے ساتھ غلط تصور کی جائیں گی۔ مرضیِ خدا، رعنائیِ خیال اور آزادیِ وطن (کسرۂ اضافت کے ساتھ) ہی درست ہوں گی(۴)۔ اس قاعدے کے مطابق مضاف اور مضاف الیہ کا عربی اور فارسی ہونا ضروری ہے۔ اس سے ہٹ کر، خواہ اس میں صوتی حُسن بھی پایا جاتا ہو، قواعد کی رُو سے صحیح نہیں مانا جائے گا جیسے ٹکڑۂ زمین، سپوتِ پاکستان، روگِ عشق، زاویۂ سوچ، پسِ اسکرین، پسینۂ جبیں، پھولِ چمن، بلندیِ پہاڑ، درپنِ دل، فخرِ دھرتی، رنگِ پھول، رقبۂ پلاٹ، غمِ سماج، سطحِ پانی وغیرہ (۵)۔ عربی کے کچھ مرکباتِ اضافی بھی اُردو میں مستعمل ہیں اور اس قدر جذب ہوگئے ہیں کہ مِن و عَن اُردو ہی کے سمجھے جاتے ہیں جیسے رسول اﷲ، کتاب اﷲ، ملک الموت، رب العالمین، رحمۃ للعالمین، حق الیقین، عیدالفطر، عیدالاضحی، قاضی القضاۃ، مطلق العنان، قرۃ العین، مدینۃ النبی، تحت الثریٰ، عندالضرورت اور عندالطلب وغیرہ۔ اگرچہ مضاف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں ہے، تاہم مذکورہ مثالوں میں کسرۂ اضافت کسی طور پر نہیں آسکتا۔
ہمارے نصابِ تعلیم سے عربی اور فارسی کو آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے جس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ہم اُن خوب صورت الفاظ و تراکیب سے بے بہرہ اور ناآشنا ہو رہے ہیں جو اردو زبان و ادب کا حسنِ یگانہ ہیں۔ آج کل طلبہ، اساتذہ اور پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں، ادیب اور شاعر بھی ان تراکیب کو استعمال کرنے میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جہاں اِضافت ہونی چاہیے وہاں فارسی سے نابلد یہ لوگ اضافت کھا جاتے ہیں اور جہاں اضافت نہیں ہے ’زیرِ اضافت‘ کا غلط استعمال کرتے ہوئے وہاں بھی اضافت لگاتے چلے جاتے ہیں۔ اضافت کی متعدد قسمیں ہیں جیسے اضافتِ مطلق، اضافتِ مِلک، اضافتِ نسبی، اضافتِ ظرفی، اضافتِ توضیحی، اضافتِ مادی، اضافتِ علّت و سبب، اضافتِ شبہی، اضافتِ استعارہ، اضافتِ وصفی، اضافتِ ابنی، اضافتِ بیانی، اضافتِ تخصیصی، اضافتِ مقلوب وغیرہ مگر یہاں اضافتِ مقلوب کے سوا کسی اور اضافت کی تصریح و توضیح مقصود نہیں ہے۔
اِضافتِ مقلوب کا معنی و مفہوم
مقلوب کا لفظی معنی ہے پلٹا گیا، پلٹا ہوا، یا اُلٹایا گیا، اُلٹایا ہوا۔ اُردو کے قواعد کی رُو سے اضافتِ مقلوب اُس ترکیب کو کہتے ہیں جس میں مضاف الیہ پہلے اور مضاف بعد میں آتا ہے نیز اس میں کسرۂ اضافت کا استعمال نہیں ہوتا۔ مضاف اور مضاف الیہ کے اُلٹنے اور ایک دوسرے کی جگہ پر آنے کو عملِ تقلیب کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں جہاں مضاف اور مضاف الیہ اُلٹتے ہیں وہاں ترکیب کے معنی بھی اُلٹ جاتے ہیں۔مولانا محمد حسین آزاد اضافتِ مقلوب کی بابت لکھتے ہیں کہ
’’مضاف ہمیشہ پہلے ہوتا ہے مگر اکثر جگہ ترکیب الٹ دیتے ہیں اور اسے اضافتِ مقلوب کہتے ہیں مثلاً جہان شاہ، شاہان شاہ وغیرہ‘‘۔(۶)
یہ ترکیب اصل میں ’’شاہِ جہان‘‘(جہان کا بادشاہ) اور ’’شاہِ شاہان‘‘ (بادشاہوں کا بادشاہ)تھی لیکن عملِ تقلیب کی وجہ سے جہان شاہ اور شاہان شاہ ہو گئی۔ مضاف الیہ (جہان اور شاہان) پہلے آگیا اور مضاف (شاہ) بعد میں۔ مولانا محمد حسین آزاد نے ’’جہاں شاہ‘‘ کی مثال تو دے دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا چلن اب ختم ہو چکا ہے البتہ شاہان شاہ(جس کی مخفف صورت شاہنشاہ اور شہنشاہ ہے) کا استعمال بدستور مروّج ہے۔ پروفیسر عبدالستار صدیقی نے اضافتِ مقلوب کی بابت لکھا ہے کہ
’’ایک دوسری صورت اضافت کی ہے کہ پہلے مضاف الیہ پھر مضاف ]یعنی فارسی کے مرکب اضافی کے عام رواج کے برعکس جس میں مضاف پہلے آتا ہے[ اور دونوں کے بیچ میں کوئی تیسری چیز نہیں۔ اسے فارسی کے نحویوں نے ’’اضافتِ مقلوب‘‘ کا نام دیا۔ پہلے دور کی ]فارسی[ زبان میں اضافت کی یہی ایک صورت ہے جیسے ’’شاہان شاہ‘‘(جس سے شاہنشاہ پھر شہنشاہ ہو گیا)‘‘۔(۷)
اضافت کے غَلَط استعمال کی عمومی مثالیں
کسرۂ اضافت کے غلط استعمال سے اُردو زبان کے حالات خراب تر صورت کی طرف جارہے ہیں۔ ایک تو اُردو میں اعراب لگانے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے مرکب اضافی میں کسرۂ اضافت بھی اکثر نہیں لکھا جاتا، دوسرا ستم یہ ڈھایا جاتا ہے کہ جو تراکیب کسرۂ اضافت کے بغیر مستعمل ہیں وہاں ہمارے اردو مصنفین و مؤلفین لکھتے وقت بے دھڑک کسرۂ اضافت لکھ دیتے ہیں جس سے اکثر تراکیب کے معانی غتر بود ہو جاتے ہیں۔ کچھ مثالیں قارئین کے ملاحظہ کے لیے پیش کی جاتی ہیں جن کی ترتیب اُن کی اہمیت کو پیشِ نظر رکھ کر قائم کی گئی ہے:
پیشِ لفظ نہیں، پیش لفظ ہے
یہ ترکیب اصل میں ’لفظِ پیش‘ ہے جسے عملِ تقلیب کے بعد ’پیش لفظ‘ بنا لیا گیا۔ یہاں پیش کی ش پر کسرۂ اضافت ہر گز نہیں ہے ورنہ معنی بدل جائے گا۔’ پیش لفظ‘ کا معنی ہے وہ تعارفی تحریر جو متنِ کتاب سے پہلے ہو۔ یہ تحریر عام طور پر مصنفِ کتاب کے سوا کسی اور ادیب کی ہوتی ہے۔ اُردو میں اسے’ مقدمہ‘ اور’ دیباچہ‘ بھی کہتے ہیں، انگریزی میں preface کہا جاتا ہے۔’ پیش‘ کا لغوی معنی ہے پہلے، سامنے اور آگے۔ یہ’ پس‘(پیچھے) کی ضد ہے۔ ترکیب میں اگر کسرۂ اضافت لگا دیا جائے تو’ پیشِ لفظ‘ کا معنی بن جائے گا لفظ کے سامنے یا لفظ سے پہلے اور یہ ترکیب اُردو میں کہیں بھی مستعمل نہیں ہے۔
پسِ منظر نہیں، پس منظر ہے
پس منظر(کسرۂ اضافت کے بغیر)اصل میں ’منظرِپس‘ہے یعنی’پیچھے کا منظر‘ جسے انگریزی میں بیک گراؤنڈ (background) کہتے ہیں۔ تقلیب کے عمل نے اپنا کام کیا اور اسے ’پس منظر‘ بنا دیا۔ پس منظر کا مطلب ہے کسی واقعہ کے اسباب و محرکات جو اس کے وجود میں آنے کا باعث ہوئے ہوں، کسی تصویر یا منظر کا وہ حِصّہ جو دیکھنے والے سے دور تر ہو، ماحول جس میں کوئی واقعہ ظہور پذیر ہوا ہو، اصل حقیقت جو بدیہی طور پر نظر نہ آئے۔ (۸)
اس ترکیب کو اگر ’پسِ منظر‘(سین کے نیچے کسرۂ اضافت کے ساتھ) پڑھا جائے تو اس کا مطلب ہو گا’ منظر کے پیچھے‘ (behind the scene)اس طرح یہ معنیٰ بالکل مختلف ہو جائیں گے اور یہ اضافتِ مقلوب نہیں رہے گی۔ اس قسم کی دیگر مثالیں ’پسِ دیوار‘(دیوار کے پیچھے)،’ پسِ آئینہ‘(آئینے کے پیچھے)،’ پسِ پردہ‘(پردے کے پیچھے) اور’ پسِ پشت‘ (پیچھے کی طرف) وغیرہ ہیں۔
خط و کتابت نہیں، خط کتابت ہے:
خط کتابت اصل میں ’کتابتِ خط‘ کی مقلوب صورت ہے جس کا معنی ہے خط لکھنا۔ یہ ترکیب، عملِ تقلیب کے بعد خط کتابت(کسرۂ اضافت کے بغیر)ہو گئی جس کا مطلب ہے خط لکھنا، مراسلت کرنا۔ خط و کتابت کی ترکیب کسی طور پر درست نہیں ہے کیونکہ اس میں واوِ عاطفہ غیر ضروری ہی نہیں، بالکل غلط ہے۔ کتابت عربی مصدر ہے جس کا معنی ہے لکھنا۔ اس لحاظ سے ’ خط و کتابت‘ کا معنی اور مفہوم ہو جائے گا ’خط اور لکھنا‘ جو بے معنی سی بات ہے۔
ذیل میں دو سندیں پیش کی جاتی ہیں جن سے ثابت ہو گا کہ نثر نگاروں اور ادیبوں کے ساتھ ساتھ شعرائے کرام نے بھی اپنی شاعری میں خط و کتابت نہیں، خط کتابت (واوِ عاطفہ کے بغیر) ہی استعمال کیا ہے۔ اسمٰعیل میرٹھی کا شعر ہے

راہ و رسمِ خط کتابت ہی سہی
گل نہیں تو گل کی نکہت ہی سہی(۹)

’خط کتابت‘ کی سند میرؔ کے ہاں بھی ملتی ہے

خط کتابت سے یہ کہتے تھے نہ بھولیں گے تجھے
آویں گے گھر بار کی، تیری، خبر کو بار بار
جب گیا میں یاد سے، تب کس کا گھر، کاہے کا پاس
آفر یں، صد آفریں اے مردمانِ روزگار(۱۰)

پیشِ منظر نہیں، پیش منظر ہے
پیش منظر(کسرۂ اضافت کے بغیر) ’ منظرِ پیش‘ کی مقلوب صورت ہے جس کا معنی ہے سامنے کا منظر(Scenario)،منظر نامہ، اس بات کا بیان کہ حال اور مستقبل میں واقعات و معاملات کے کس انداز میںوقوع پذیر ہونے کا امکان ہے۔ پیشِ منظر(کسرۂ اِضافت کے ساتھ) ایک دوسری ترکیب بنانے کی کوشش ہو سکتی ہے جس کا معنی ہو گا ’منظر کے سامنے‘ لیکن اردو میں یہ ترکیب مستعمل نہیں ہے۔ ہاں! ایک ترکیب ’پیشِ نظر‘ ہے جو بالکل درست ہے اور اس کا معنی ہے ’نظر کے سامنے‘ لیکن بات منظر کی ہو رہی ہے نظر کی نہیں۔
سَرِوَرَق نہیں، سَرْ وَرَق ہے
یہ ترکیب کسرۂ اِضافت کے بغیر ہو گی کیونکہ یہ مقلوب صورت ہے۔ یہ اصل میں ’ورقِ سر‘ ہے جسے عملِ تقلیب کے بعد سَرْوَرَق بنا لیا گیا۔ اس کا معنی ہے کتاب کا پہلا ورق یعنی ٹائیٹل پیج (title page)۔اس ترکیب میں سرکے معانی ابتدا، چوٹی اور عنوان کے ہیں۔ سرِ َورَق (کسرۂِ اضافت کے ساتھ) کہنے کی صورت میں اس کا معنی ہو جائے گا ’ورق کا سر‘ جو ایک بے معنی سی ترکیب ٹھہرے گی۔
پسِ نوشت نہیں، پس نوشت ہے
پس نوشت(کسرۂ اضافت کے بغیر) اصل میں ’نوشتۂ پس‘ کی مقلوب صورت ہے۔ اس کا مطلب ہے صفحے کی پُشت پر چند سطری تحریر، کوئی وضاحتی یا تاکیدی بات جو خط لکھنے کے بعد یاد آئے۔ مکتوب نگاری میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خط میں لکھے سے رہ جانے والی بات یا وضاحت اختتامِ متن کے نیچے یا صفحے کے دوسری طرف نہایت اختصار سے لکھ دی جاتی ہے۔ اس کے مقابل پسِ نوشت(کسرۂ اضافت کے ساتھ) ایک مہمل ترکیب ہے۔
تفصیل اور وضاحت کے بغیر، اضافتِ مقلوب کی کچھ ایسی مثالیں پیش کی جارہی ہیں جنھیں بولنے اور لکھنے میں اکثر غلطی کر دی جاتی ہے
غلط استعمال صحیح استعمال
ایرانِ زمین ایران زمین(کسرۂ اضافت کے بغیر)عمل تقلیب سے پہلے اس کی صورت ’زمینِ ایران‘ تھی۔
ایرانِ شہر ایران شہر (کسرۂ اضافت کے بغیر)عمل تقلیب سے پہلے اس کی صورت’ شہرِ ایران‘ تھی۔
پسِ افگندہ پس افگندہ(کسرۂ اضافت کے بغیر) پیچھے پھینکا ہوا، گوبر، پاخانہ یا بیٹ۔
پسِ انداز پس انداز (کسرۂ اضافت کے بغیر) بچا ہوا، جمع کیا ہوا، باقی، بچت، کفایت شعاری۔
پسِ پا پس پا (کسرۂ اضافت کے بغیر) واپس، اُلٹے پاؤں، شکست خوردہ۔
پسِ خوردہ پس خوردہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) بچا ہوا کھانا، جُھوٹا، اُلُش۔
پسِ خیمہ پس خیمہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) فوج یا قافلے کا پچھلا خیمہ، فوج کے پیچھے چلنے والا ساز و سامان، فوج یا قافلے کے پیچھے چلنے والا حِصّہ۔
پسِ رَو پس رَو (کسرۂ اضافت کے بغیر) پیچھے چلنے والا، نوکر، ملازم، پیروی کرنے والا۔
پسِ ماندہ پس ماندہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) پیچھے رہا ہوا، بچا ہوا، مرنے والے کا وارِث۔
پیشِ افتادہ پیش افتادہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) سامنے پڑا ہوا، فرسودہ، پامال، معمولی۔
پیشِ امام پیش امام (کسرۂ اضافت کے بغیر) نماز پڑھانے والا، امامت کرنے والا۔
پیشِ ازیں پیش ازیں (کسرۂ اضافت کے بغیر) اس سے پہلے، اس سے آگے۔
پیشِ اندیش پیش اندیش(کسرۂ اضافت کے بغیر) عاقبت اندیش۔
پیشِ بُریدہ پیش بُریدہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) زنخا، ہیجڑا، مُخنث۔
پیشِ بندی پیش بندی (کسرۂ اضافت کے بغیر) کسی بات کا پہلے سے انتظام یا تدارک، روک تھام۔
پیشِ بیں پیش بیں (کسرۂ اضافت کے بغیر) عاقبت اندیش، دور اندیش۔
پیشِ پا افتادہ پیش پا افتادہ(کسرۂ اضافت کے بغیر) سامنے کی بات، بہت معمولی بات۔
پیشِ تاز پیش تاز (کسرۂ اضافت کے بغیر) آگے بڑھ جانے والا۔
پیشِ خیمہ پیش خیمہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) وہ خیمہ جو اگلی منزل پر بھیج دیا جاتا ہے تاکہ پہنچنے پر انتظار نہ کرنا پڑے، ہراول دستہ، کسی کام کے ظہور کا سامان۔
پیشِ دست پیش دست(کسرۂ اضافت کے بغیر) پہل کرنے والا، سبقت کرنے والا۔
پیشِ رس پیش رس (کسرۂ اضافت کے بغیر) پہلا، پہلے ہونے والا، موسم کا تازہ بہ تازہ پھل، وہ لڑکا جو اپنی عمر سے زیادہ ذہین اور عقل مند ہو۔
پیشِ رفت پیش رفت(کسرۂ اضافت کے بغیر) کسی کام کا آگے بڑھنا۔
پیشِ قدمی پیش قدمی (کسرۂ اضافت کے بغیر) سبقت، آگے بڑھنا، چڑھائی کرنا۔
پیشِ کار پیش کار (کسرۂ اضافت کے بغیر) ذاتی مددگار، سیکرٹری۔
پیشِ کش پیش کش (کسرۂ اضافت کے بغیر) نذرانہ، تحفہ، presentation۔
پیشِ نہاد پیش نہاد (کسرۂ اضافت کے بغیر) تجویز، مدنظر، منظورِ خاطر، ارادہ۔
پیشِ قبض پیش قبض (کسرۂ اضافت کے بغیر) خنجر، چھُرا۔
پیشِ گاہ پیش گاہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) عمارت کا اگلہ حصّہ ، دالان، برآمدہ۔
پیشِ وا پیش وا (کسرۂ اضافت کے بغیر) امام، سربراہ۔
اسی طرح سربراہ، سربرہنہ، سربُریدہ، سربزانو، سربستہ، سر بسر، سربہ صحرا، سربفلک، سربکف، سربگریباں، سربلند، سربمہر، سربند، سرپرست، سرتابی، سرتاج، ، سرچشمہ، سرخوش، سردار، سررشتہ، سرزد، سرسبز، سرشار، سرغنہ، سرکردہ، سرکش، سرگزشت، سرگرداں، سرگرمی، سرگوشی، سرمست، سرنام، سرنگوں وغیرہ میں سر کے ’’ر‘‘ پر کسرۂ اضافت نہیں آئے گا۔
اُردو اشعار میں، بعض اوقات قدیم فارسی انداز پر مستعمل، اضافتِ مقلوب بھی آجاتی ہے مثلاً مردِ خوب سے ’’ے‘‘ کے اضافے کے ساتھ خوب مردے۔ اضافتِ مقلوب لانا غالبؔ کا خاص انداز ہے۔ (۱۱)
فارسی کے بعض مرکبات میں کسرۂ اضافت کا وجود ہوتا ہے لیکن اسے پڑھا اور لکھا نہیں جاتا۔اگر کوئی اسے استعمال کرنا جائز سمجھے تو قاعدے سے انحراف نہیں ہو گا مگر ترجیح چلن کو حاصل ہو گی۔ پروفیسر عبدالستار صدیقی لکھتے ہیں
’’جب مضاف اور مضاف الیہ میں گہرا میل ہو جاتا ہے اور کوئی مرکب بہت زیادہ استعمال ہونے لگتا ہے تو اس میں سے اضافت کا کسرہ جاتا رہتا ہے، جیسے صاحبِ دل سے صاحب دل، شاہِ جہاں سے شاہ جہاں، نورِ جہاں سے نور جہاں اور مالکِ مکان سے مالک مکان‘‘(۱۲)
مختلف تراکیب کی تین ایسی مثالیں پیش کی جارہی ہیں جو اضافتِ مقلوب کی ذیل اور بحث میں نہیں آتیں لیکن اکثر لوگ بلکہ پڑھے لکھے اصحاب، انھیں غلط بولتے اور لکھتے ہیں اور کسرۂ اضافت کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔
دستِ نگر نہیں، دست نِگرہے
دستِ نگر(دست کی ت پر کسرۂ اضافت اور نگر کے نُون پر زبر)کا معنی ہے’ شہر کا ہاتھ‘۔یہ سراسر مہمل اور لغو ترکیب ہے۔ یہ اصل میں ’دست نِگر‘ (’’ت‘‘ کسرۂ اضافت کے بغیر اور نون کے نیچے زیر) ہے۔نِگر،نِگریستن مصدر سے ہے جس کا معنی ہے دیکھنا۔ اسی سے نگران ہے یعنی دیکھنے والا ، نگرانی بھی اسی سے ہے۔ دست نِگر کا مطلب ہے مانگنے کی غرض سے کسی کے ہاتھ کی طرف دیکھنے والا یعنی سائل، محتاج، حاجت مند اور فقیر وغیرہ۔
جانِ آفریں نہیں، جاں آفریں ہے
جانِ آفریں(نون کے نیچے زیر) کا مطلب ہے’ پیدا کرنے والے کی جان‘۔ اس معنی کا تصور ہی بہت خوفناک ہے۔آفریں، آفریدن مصدر سے ہے اور ’جاں آفریں‘ کا معنی ہے جان پیدا کرنے والا یعنی اﷲ تعالیٰ۔ عام طور پر سننے میں آتا ہے کہ،’اس نے اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کر دی‘ جو کہ سراسر غلط ہے۔ اس جملے کو اس طرح ہونا چاہیے:’اُس نے اپنی جان ، جاں آفریں کے سپرد کر دی‘۔
چشمِ زدن نہیں، چشم زدن ہے
’چشم زدن‘ میں چشم کی میم پر کسرۂ اضافت نہیں ہے۔ چشمِ زدن (کسرۂ اضافت کے ساتھ) کا معنی انتہائی مہمل اور لغو بنتا ہے یعنی ’زدن(مارنا) کی آنکھ‘۔ چشم زدن کا لغوی معنی ہے آنکھ مارنا، آنکھ جھپکنا جب کہ اس کا مفہوم اور مطلب ہے لمحہ بھر۔ ’چشم زدن میں‘ کا مطلب ہو گا لمحہ بھر میں، فوراً ، بہت جلداوربہت تیزی سے۔
اُردو کی حفاظت اور صحتِ زبان پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔بزرگوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کو درست اور خالص زبان منتقل کریں۔ درست اور غلطیوں سے پاک زبان سامع اور قاری پر خوش گوار اثر ڈالتی ہے۔ اضافت کے قواعد کو سمجھنا اور محلِّ استعمال کو جاننا اردو کی حفاظت کا ایک طریقہ ہے۔ اس ضمن میں ہیچ مداں کی یہ ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔
………………………………
حوالے اور حواشی

۱۔وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعَالِمِیْنَ Oسورہ الروم: ۲۲۔
۲۔العلق:۹۶۔
۳۔ڈاکٹر غلام مصطفی خان، جامع القواعد حصّہ نحو (لاہور: اردو سائنس بورڈ، ۲۹۹۔اپر مال،۲۰۰۳ء)، ص۵۱۔
۴۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، صحتِ اِملا کے اصول (کراچی۔ادارۂ یادگارِ غالب، ۲۰۱۶ء) ص ۱۴۔
۵۔خواجہ محمد عارف، اردو ہے جس کا نام،]غیر مطبوعہ مضمون، مخزونہ راقم الحروف[مضمون نگار شاعر، ادیب اور لسان شناس ہے۔ انگلستان میں مقیم ہے۔
۶۔محمد حسین آزاد، جامع القواعد(لاہور: راے صاحب ایم گلاب سنگھ اینڈ سنز، ۱۹۰۷ء) ص۱۱۰] تیرھواں ایڈیشن[، ]اشاعتِ اوّل ۱۸۸۹ء[
بحوالہ رؤف پاریکھ، ذکر اضافت کھانے اور اضافت کے اضافے کا، مشمولہ قومی زبان، شمارہ جنوری ۲۱۰۹ء،
(کراچی:انجمن ترقیِ اردو پاکستان)، ص۷۵۔
۷۔عبدالستار صدیقی، مقالاتِ صدیقی، پہلا حِصّہ، (لکھنؤ:اتر پردیش اکیڈمی، ۱۹۸۳ء) ، ص ۱۴۵۔
بحوالہ رؤف پاریکھ، ذکر اضافت کھانے اور اضافت کے اضافے کا، مشمولہ قومی زبان، شمارہ جنوری ۲۱۰۹ء،
(کراچی:انجمن ترقیِ اردو پاکستان)، ص۷۶۔
۸۔شان الحق حقی، فرہنگِ تلفظ(اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۹۵ء)، ص ۲۳۸۔
۹۔اسمٰعیل میرٹھی، کلیاتِ اسمٰعیل(میرٹھ:اورینٹل پبلشنگ کمپنی، ۱۹۱۰ء)، ص ۲۷۹۔
بحوالہ رؤف پاریکھ، ذکر اضافت کھانے اور اضافت کے اضافے کا، مشمولہ قومی زبان، شمارہ جنوری ۲۱۰۹ء،
(کراچی:انجمن ترقیِ اردو پاکستان)، ص۷۷۔
۱۰۔ رؤف پاریکھ، اردو کے چند نادر الفاظ و تراکیب، مشمولہ مباحث، مدیر ڈاکٹر تحسین فراقی، شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۲ء،
(لاہور:اردو منزل ۳۲۵۔ای جوہر ٹاؤن )، ص۲۳۵۔
۱۱۔ڈاکٹر غلام مصطفی خان، جامع القواعد حصّہ نحو (لاہور: اردو سائنس بورڈ، ۲۹۹۔اپر مال،۲۰۰۳ء)، ص۵۴۔
۱۲۔عبدالستار صدیقی، مقالات صدیقی، پہلا حصہ، (لکھنؤ: اتر پردیش اکیڈمی، ۱۹۸۳ء)،ص۱۴۵۔
بحوالہ رؤف پاریکھ، ذکر اضافت کھانے اور اضافت کے اضافے کا، مشمولہ قومی زبان، شمارہ جنوری ۲۱۰۹ء،
(کراچی:انجمن ترقیِ اردو پاکستان)، ص۷۶۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروض کی کچھ بنیادی اصطلاحات

سبب (دو حرفی کلمہ )
سبب (دو حرفی کلمہ ) کی دو اقسام ہیں:
سبب خفیف
سبب ثقیل

سبب خفیف:
سبب خفیف سے مراد وہ متحرک حرف ہے جو ساکن سے ملا ہوا ہو۔
یا
ایسا دو حرفی کلمہ جس کا پہلا حرف متحرک دوسرا ساکن ہو سبب خفیف کہلاتا ہے۔
جیسے
ھَل ، مِن ، مُف

سبب ثقیل:
سبب ثقیل سے مراد دو متحرک حروف ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہوں۔
یا
ایسا دو حرفی کلمہ جس کے دونوں حروف متحرک ہوں سبب ثقیل کہلاتا ہے
مثلا
مَعَ ، لَکَ ، مُتَ

وتد (تین حرفی کلمہ)
وتد (تین حرفی کلمہ) کی دو اقسام ہیں:
وتد مجموع
وتد مفروق

وتد مجموع:
ایسا تین حرفی کلمہ جس کے پہلے دو حرف متحرک اور تیسرا حرف ساکن ہو وتد مجموع کہلاتا ہے۔
مثلا
سَفَر
وتد مفروق:
ایسا تین حرفی کلمہ جس کا پہلا اور تیسرا حرف متحرک اور درمیان والا (دوسرا) حرف ساکن ہو وتد مجموع کہلاتا ہے۔
مثلا
حَیثُ

فاصلہ صغری
ایسا چار حرفی کلمہ جو سبب ثقیل اور سبب خفیف سے مل کر بنا ہو۔
یعنی
فاصلہ صغری = سبب ثقیل + سبب خفیف
یا
ایسا چار حرفی کلمہ جس میں پہلے تین حرف متحرک اور چوتھا حرف ساکن ہو فاصلہ صغری کہلاتا ہے۔
مثلا
ضَرَبَت = ضَرَ ( سبب ثقیل ) + بَت ( سبب خفیف )

فاصلہ کبری:
ایسا پانچ حرفی کلمہ جو سبب ثقیل اور وتد مجموع سے مل کر بنا ہو۔
یعنی
یعنی
فاصلہ کبری = سبب ثقیل + وتد مجموع
یا ایسا پانچ حرفی کلمہ جس میں پہلے چار حروف متحرک اور پانچواں حرف ساکن ہو فاصلہ کبری کہلاتا ہے۔
مثلا
ضَرَبَکُم= ضَرَ ( سبب ثقیل )+ بَکُم ( وتد مجموع )

*اس متن میں صنعت اقتباس پائی جاتی ہے :) بحوالہ "محیط الدائرہ" ، اردو ترجمہ ڈاکٹر غلام جیلانی مخدوم اعظم پوری
اضافات از محمد وارث
ارکان:
اسباب، اوتاد اور فواصل کی ترتیب سے کچھ الفاظ بنتے ہیں، جنہیں ارکان کہتے ہیں اور انہی ارکان سے بحر بنتی ہے، جیسے

ایک سببِ خفیف اور ایک وتدِ مجموع کو جمع کرنا سے ایک رکن بنتا ہے جسے 'فاعلن' کہتے ہیں یعنی

سببِ خفیف (فا) + وتد مجموع (علن) = فاعلن (رکن)

اسی طرح

وتد مجموع (علن) + سببِ خفیف (فا) = علن فا = فعولن (رکن)

کل آٹھ سالم اراکین ہیں (دس بھی کہتے ہیں لیکن دس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے)، مزاحف اراکین بے شمار ہیں، سالم اراکین یہ ہیں:

1- فعولن
2- فاعلن
3- مفاعیلن
4- فاعلاتن
5- مستفعلن
6- مفعولات
7- متفاعلن
8- مفاعلتن

انہی اراکین میں سے کسی ایک کی تکرار یا مخلتف اراکین کی ترتیب سے بحریں بنتی ہیں جیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ علمی باتیں

شاعری کو مسلک سے ہٹ کر دیکھنا چاہیے ہم ہندو شاعروں کو انگریز شاعروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ان کو ادب میں اعلی مقام دیتے ہیں لیکن جناب احمد رضا خان بریلوی رح کو اردو ادب میں وہ مقام نہیں دیا گیا ۔ اردو ادب کی تنقیدی کتابوں میں نقاد حضرات ان کو اگنور کرتے ہیں

*فنِ شاعری اور حسان الہند* تنقید بالا طاق رکھ کر پڑھیے

(مولانا احمد رضا خان بریلوی) بطور شاعر

( یہ صرف پسند کرنے والی نہیں ۔ شئیر کرنے والی پوسٹ ہے تاکہ اردو ادب والے احمد رضا بریلوی صاحب کو جان سکیں )

عبد الستار ہمدانی صاحب کی تحقیق پر مبنی اردو ادب کی ایک نایاب کتاب اگرچہ اس کا بنیادی مقصد احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کہ شاعری کا تعارف ہے جس کے لئے دوسرے شعرا کے ساتھ ان کی شاعری کے موازنے کا طریقہ اپنا گیاہے اور اس موازنے میں ہی اردو ادب کی بے پناہ مفید معلومات ہیں ۔

کچھ نکات دیکھئے ۔

۱۔ جید شعرا میں ایک غزل میں سب سے زیادہ حسن مطلع کہنے کا اعزاز جگر مراد آبادی صاحب کے پاس ہے ۔ ایک غزل میں آٹھ حسن مطلعے ۔ اور احمد رضا خان صاحب نے ایک غزل ،

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
، تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

میں 46 مطلعے کہے ۔ اور 90 سے زیادہ قافیے استعمال کئے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک خیال دوبارہ نہ آیا اور تمام اشعار فنی محاسن میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔

2. بحر وافر سالم ۔ مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن کو عربی بحر سمجھا جاتا تھا ۔ اور اس میں میر سے غالب اور غالب سے داغ تک کسی استاد شاعر کی کوئی قابل ذکر غزل دیکھنے میں نہیں آتی ۔ لیکن احمد رضا بریلوی صاحب نے

زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لئے
چنین و چناں تمہارے لئے ، بنے دو جہاں تمہارے لئے

والا کلام لکھ کر اس بحر کو نئی زندگی دی ۔ یہ نعت پڑھنے کے قابل ہے ۔ اس وقت کی نامانوس بحر میں کیا موسیقیت ڈالی ہے ۔

جناں میں چمن، چمن میں سمن، سمن میں پھبن ، پھبن میں دلہن
سزائے محن ، پہ ایسے منن، یہ امن و اماں تمہارے لئے

3. شمس الرحمان فاروقی نے شعر شور انگیز میں لکھا ہے کہ میر اس لئے خدائے سخن ہے اور غالب پر فوقیت رکھتا ہے کہ میر نے غزل کے علاوہ مثنوی اور دوسری اصناف مین بھی اچھا لکھا ہے ۔ اور احمد رضا بریلوی ۔ اللہ اللہ

غزل، مثنوی ، قصیدہ ، مرثیہ ، قطعہ ، مثلت ، رباعی، مخمس ، مسدس ہر ایک میں لکھا ہے ۔

4. علامہ اقبال چونکہ قرآن پاک اور احادیت کے کے حوالے سے لکھتے تھے تو جید شعرا میں سے اقبال قرآن پاک یا احادیث کے عربی الفاظ کو اپنے اشعار میں استعمال کرنے والے شعرا میں سب سے آگے ہیں ۔ قریبا 5-10 اشعار ہیں اور احمد رضا صاحب نے اردو کے 39 اشعار میں قرآن پاک یا حدیث کا عربی متن کا ٹکڑا استعمال کیا ہے

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

تبارک اللہ شان تیری ، تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش لن ترانی ، کہیں تقاضے وصال کے تھے

5. کسی شعر میں کوئی پورا مصرع یا ایک بند میں پورا ایک مصرع یا شعر کسی دوسری زبان کو ہو تو اسے صنعت تلمیع کہتے ہیں ۔ اس میں غالب نے ایک شعر لکھا ہے ۔

دھوپ کی تابش ، آگ کی گرمی
وقنا ربنا عذاب النار !!!

اس کے علاوہ کسی جید شاعر کا کوئی شعر نظر سے نہیں گذرتا ۔ اور احمد رضا صاحب ۔ کیا خدا کی عطا ہے ۔ ان سے اس صنعت پر نعت لکھنے کی فرائش کی گی تو آپ نے چار زبانوں پر مشتمل نعت لکھ دی ۔ اور ہر سخن فہم جانتا ہے کہ حق ادا کیا

لم یات نظیرک و فی نظر
مثل تو نہ شد پیدا جانا
جب راج کو تاج تورے سر سوہے
میں نے تجھ کو شہہ دوسرا جانا

6. بچپن میں صنعت تجنیس کا ایک شعر سنا تھا ۔

اے پھول میرے پھول کو یہ پھول دے دینا
کہنا کہ تیرے پھول نے یہ پھول بھیجا ہے

ایک لفظ نے ایک شعر میں 5 معنی دیئے ہیں ۔ اور یہی اس شعر کی خوبی تھی ۔ احمد رضا بریلوی صاحب کا شعر دیکھئے ۔ ایک مصرعے میں ایک لفط کے 5 اور شعر میں 7 مطلب ۔ سیدہ زاہرہ سلام اللہ علیہ کے لئے لکھتے ہیں

نور، بنت نور و زوج نور و ام نور و نور
نور مطلق کی کنیز ، اللہ دے لینانور کا

7. صنعت ترصیع ۔ جس میں پہلے مصرع الفاظ دوسرے مصرع کے جیسے ہوں یا ہم قافیہ ہوں ۔ مثلا

نام۔۔۔۔۔ تیرا ۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری
کام ۔۔۔۔میرا ۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیری

اس صنعت میں شعر ڈھونڈھنے سے نہیں ملتا ۔ لیکن احمدرضا یہاں بھی کمال کر کرگئے ۔ اس صنعت میں بھی چار اشعار کہہ گئے

دھارے ۔۔۔۔ چلتے ۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔عطا ۔۔۔۔۔ کے ۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔۔۔قطرہ ۔۔۔۔۔تیرا
تارے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کھلتے ۔۔۔۔ ہیں ۔۔۔۔۔ سخا ۔۔۔۔۔ کے ۔۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔ ذرہ ۔۔۔۔۔۔۔ تیرا

اور شعر برائے شعر نہیں بلکہ ایک شعر تو زبان زد عام ہے ۔ لیکن اس صنعت کا رات ہی پتا چلا

سب سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اولٰی او اعلیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا نبی
سب سے ۔۔۔۔۔۔ بالا و والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا نبی ۔

قصیدہ مرصعہ

ایسا قصیدہ جس میں مطلع اور حسن مطلع کے بعد ہر شعر کا پہلا مصرع (کیونکہ دوسرے میں تو ردیف ہوتی ہے ) حروف تہجی کو ترتیب سے ادا کرے ۔ یعنی پہلے شعر الف ، دوسرے میں بے ، تیسرے میں تے آئے ۔ احمد رضا صاحب نے سلام کی شکل میں یہ قصیدہ بھی کہہ ڈالا                      

اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الف
جب نہ خدا ہی چھپا، تم پہ کروڑوں درود

ذات ہوئی انتخاب ، وصف ہوئے لا جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ب
نام ہوا مصطفی تم پہ کروڑوں درود ۔

بس بھئی ، پورا قصدہ نہیں لکھ سکتا اور نہ ہی ان کی شاعری کے سب محاسن لکھ سکتا ہون ۔ صرف ایک خاکہ دینا تھا دوستوں کو کہ اردو ادب کے اس قادر الکلام استاد شاعر کو مسلک کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور اردو ادب میں اس کا حق نہیں ملا۔

*منقول*،،۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتویں مشاعرے کی بحر کے بارے میں 10 اہم باتیں:
==================

(1) اس کا پورا نام یہ ہے:
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
۔ ۔ ۔
(2) اس بحر کے ارکان یہ ہیں:
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
۔ ۔ ۔
(3) یہ بحر غزلیات کے باب میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی بحور میں شمار ہوتی ہے ، دیوان غالب کی 244 غزلوں میں سے 66 اسی بحر میں ہیں۔
۔ ۔ ۔
(4) مجھے بھی ذاتی طور پر یہ بحر سب سے زیادہ پسند ہے۔
۔ ۔ ۔
(5) اس کے ارکان کے نمبرات یہ ہیں:
22 21 21 11 22 21 21
۔ ۔ ۔
(6) غور کریں تو اس بحر کے تین حصے ہیں:
پہلا حصہ: 22 21 21
دوسرا حصہ: 11
تیسرا حصہ: 22 21 21
اس توازن میں غور کرنے سے اس بحر کی خوب صورتی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
۔ ۔ ۔
(7) ہر بحر کی طرح اس کے بھی آخر میں ایک ساکن کا اضافہ کرکے فاعلن کو فاعلان کرسکتے ہیں۔
۔ ۔ ۔
(8) اس بحر کے دوسرے اور تیسرے رکن یعنی فاعلات مفاعیل کے درمیان چونکہ تین محترک جمع ہورہے ہیں، اس لیے ان میں تسکینِ اوسط سے بھی بوقت ضرور کام لیا جاسکتا ہے ، مگر چونکہ ایسا کرنے کا رواج نہیں ہے اس لیے ایسا صرف اس صورت میں کرنا چاہیے جب متحرک رکھتے ہوئے خیال کو موزوں کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آرہی ہو۔
۔ ۔ ۔
(9) اس بحر میں پڑھی جانے والی مشہور نعتیں اور نظمیں یہ ہیں:
٭٭ اک روز مومنو! تمھیں مرنا ضرور ہے
٭٭ اللہ کے حبیب ہیں ، جرأت کے وہ نشاں
٭٭ پہلے عمل میں ان کے اثر پیروی کرو
٭٭ جب سے مرا حضور سے کانٹکٹ ہوگیا
٭٭ دیدارِ مصطفیٰ کے جو حق دار ہوگئے
٭٭ صورت کو دیکھتے ہی سبھی زخم بھر گئے
٭٭ عظمت کا آسماں ہیں صحابہ حضور کے
٭٭ لب پر درود ، دل میں خیالِ رسول ہے
۔ ۔ ۔
(10) ان میں سے کسی بھی نعت یا نظم کو سننے کے لیے گوگل پر اس مصرع کو رومن میں لکھیں اور آگے MP3 لکھ کر سرچ کرلیں۔ :)

==================
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امالےکےحوالےسےایک اہم تحریر
Copied
اِمالے کے متعلق اِنتہائی واضح اصول و ضوابط پر مبنی تفصیل:

امالہ بظاہر ایک بڑی سادہ سی چیز لگتی ہے، لیکن اگر گہرائی میں جا کر دیکھیں تو اس کے اندر کچھ ایسی پیچیدگیاں نظر آتی ہیں جو اردو کے نئے لکھنے والوں کو خاصی الجھن میں ڈال دیتی ہیں۔ اس تحریر میں کوشش کی جا رہی ہے کہ ان الجھنوں کے جالوں کو دور کیا جائے۔

امالے کا لفظی مطلب ہے ’جُھکنا۔‘ انگریزی میں اسے declension اور اس عمل کو to decline کہا جاتا ہے۔ جب یہ اصطلاح اردو گرامر میں استعمال کی جاتی ہے تو اس کے تحت کسی لفظ کے آخر میں آنے والے الف یا الف سے ملتی جلتی کسی دوسری آواز کو ے سے بدل دیا جاتا ہے۔

اس کی چند مثالیں دیکھیے:

لڑکا: لڑکے نے کھانا کھایا۔
گھوڑا: گھوڑے نے دوڑنا شروع کیا۔
کتا: کتے نے چھلانگ لگائی۔
مدینہ: مولا مدینے بلا لو مجھے۔
اب جب کہ ہم امالہ کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کر چکے ہیں، اس کے چند اصول بھی ذہن نشین کر لیجیے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر لفظ کا امالہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی چند شرائط ہیں۔

امالہ صرف ان الفاظ کا بھی کیا جاتا ہے جن کے آخر میں یا تو الف ہو، یا کوئی ایسا حرف ہو جو بولنے میں الف کی طرح لگے۔ ایسے الفاظ کی مثالیں ہ اور ع ہیں، جو اردو میں الف کی طرح سنائی دیتی ہیں۔
بچہ:              بچے نے کھلونا توڑ دیا
حملہ:             حملے میں ملوث افراد
صدمہ:           صدمے کے اثرات
مسئلہ:           مسئلے کی وجوہات
جمعہ:            جمعے کا بابرکت دن
موقع:             موقعے پر موجود لوگ
تنازع:           تنازعے کے بعد کی صورتِ حال
امالہ صرف مذکر الفاظ کا ہوتا ہے، مونث کا امالہ نہیں کیا جاتا۔ مثلاً لڑکی نے کھانا کھایا، گھوڑی نے دوڑنا شروع کیا، کتیا نے چھلانگ لگائی۔ ان تمام الفاظ میں اسم نہیں بدلا، حالانکہ آخری اسم (کتیا) کے آخر میں الف بھی موجود تھا۔
مشہور شہروں اور جگہوں کے ناموں کا امالہ بھی اسی اصول کے تحت کیا جاتا ہے، یعنی اگر کسی شہر کا نام الف یا اس سی ملتی جلتی آواز پر ختم ہوتا ہو تو اس کا امالہ کیا جائے گا۔
مکہ:              مکے کی شان
مدینہ:            مدینے کے انوار
سرگودھا:       سرگودھے کے مالٹے
آگرہ:             آگرے کی تاریخ
کوئٹہ:            کوئٹے کا موسم
بصرہ:           بصرے کی کھجور
ڈھاکہ:           ڈھاکے کی ململ
جن الفاظ کا امالہ نہیں ہوتا:

شہروں کے نام کا امالہ تو کیا جاتا ہے، لیکن ملکوں یا براعظموں کے ناموں کا امالہ نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر برطانیہ، امریکہ، افریقہ، کینیا، کینیڈا، سری لنکا، آسٹریلیا، کوریا، چائنا، ارجنٹینا، البانیہ، بوسنیا، چیچنیا، سربیا، وغیرہ مذکر بھی ہیں اور ان کے آخر میں الف یا ہ بھی آتی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کا امالہ نہیں کیا جاتا، کیوں کہ یہ اردو تہذیبی دنیا کا حصہ نہیں ہیں، اور اردو ذخیرۂ الفاظ میں ابھی پوری طرح سے رچے بسے نہیں۔ اردو تہذیبی دنیا سے مراد ہندوستان، پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے شہر ہیں جن سے ہمارے مذہبی اور ثقافتی روابط ہیں۔
وہ شہر یا جگہیں، جن کا تعلق اردو تہذیبی دنیا سے نہیں ہے، ان کا امالہ بھی نہیں کیا جاتا۔ اس اصول کے تحت کیلیفورنیا، کیرولائنا، فلاڈیلفیا، منیلا، آٹووا، انقرہ، بارسلونا، کینبرا، ایڈنبرا، وغیرہ کا امالہ نہیں کیا جائے گا۔
وہ الفاظ جن کی جمع نہیں بنائی جاتی، ان کا امالہ بھی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر فصیح اردو میں ابا، دادا، چچا، پھوپھا، دیوتا، راجہ، وغیرہ کی جمع نہیں بولی جاتی، اس لیے ان کا امالہ بھی نہیں ہوتا۔
بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ امالہ بولتے وقت تک تو ضرور کیا جائے لیکن انھیں امالے کے بغیر لکھا جائے۔ یہ بات صریحاً غیرمنطقی ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کی اردو املا کمیٹیوں نے سفارش کی ہے کہ جو لفظ جیسے بولا جاتا ہے ویسے ہی لکھا جائے۔  اس لیے دھماکہ کے وقت، موقع پر پہنچ گئے، واقعہ کے بعد کی بجائے دھماکے کے وقت، موقعے پر اور واقعے کے بعد بولا اور لکھا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تنقید کے اصول (مبتدی کے لیے)

اگر آپ کو ذوقِ سلیم سے کچھ حصہ عطا ہوا ہے تو آپ کے سیکھنے کے لئے یہاں بہت کچھ ہے۔ جہاں ایک طرف آپ اپنی شاعری یا نثر پر اصلاح لے سکتے ہیں وہاں دوسری طرف دوسروں کے کلام پر تبصرہ کر کے تنقید اور تبصرہ نگاری بھی سیکھ سکتے ہیں۔

یہاں جو کلام یا تحریر پیش کی جاتی ہے اس پر تبصرہ کرنے کے لئے خود شاعر، ادیب یا نقاد ہونا شرط نہیں ہے۔ اس کے کچھ فوائد ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ کلام کے بارے میں ایک عام قاری کی رائے سامنے آتی ہے اور دوسرا یہ ہے کہ صاحب کلام کے حوصلے اور برداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔😊 یقیناً اور فائدے بھی ہوں گے۔
اگر آپ بھی کسی کلام پر رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کچھ اصول مد نظر رکھنے چاہیے۔ تا کہ آپ کی رائے صاحب کلام کی حوصلہ افزائی اور اصلاح کا سبب بنے نہ کہ اس کی دل آزاری یا دل برداشتگی کا،

اصول و ضوابط کی روشنی میں کیا گیا تبصرہ اچھے نتائج لاتا ہے۔ ایسا تبصرہ ایک تو صاحب تحریر کے لیے زیادہ مفید ہوتا ہے۔ دوسرے خود تبصرہ نگار کے بارے میں بھی پڑھنے والوں میں اچھا تاثر پیدا کرتا ہے۔ آپ ایک اچھے نقاد نظر آئیں یا ایک اچھے طالب علم۔

مدعے کی طرف آتے ہیں۔
تنقید کا آغاز کرنے سے پہلے اپنی نیت کا جائزہ لیں کیوں کہ بارگاہ خداوندی میں عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے اور اچھی نیت کے ساتھ شروع کیے گئے کام میں اس کی تائید و نصرت بھی شامل ہوتی ہے۔
خود سیکھنے اور حسب استطاعت دوسروں کی اصلاح کی نیت ہو۔
صاحبِ کلام کے لئے خلوص اور ہمدردی کا جذبہ ہو۔
پہلی بار ایک قاری کی نظر سے پڑھیں اور تاثرات اپنے پاس لکھ کر رکھ لیں یا ذہن نشین کر لیں۔ (ضرورت محسوس ہو تو تبصرے میں ابتدائی تاثر کا اظہار بھی کیا جاتا ہے)
بعض اشعار ایک قرات میں ہر کسی پر نہیں کھلتے اور پھر تنقیدی یا اصلاحی تبصرہ ایک سنجیدہ ذمہ داری ہے اس لیے اس کے بعد تنقیدی نظر سے دو، تین بار یا جس قدر آپ ضرورت محسوس کریں پورے کلام کا جائزہ لیں۔
پھر تمام اشعار کا انفرادی طور پر جائزہ لے کر ان اشعار کا انتخاب کریں جو آپ کی نظر میں کسی بھی لحاظ سے قابل اعتراض ہیں اور ذہن میں ان کے بارے میں ایک رائے ترتیب دے لیں۔
رسمی داد و تحسین اور واہ واہ سے پرہیز کریں۔ البتہ کلام کی کوئی ایسی خوبی آپ پر واضح ہو جس کے بارے میں آپ سمجھیں کہ اکثر دوستوں پر واضح نہیں ہوئی ہوگی تو اس کا برملا اظہار کریں۔ تاکہ باقیوں کے علم میں اضافہ ہو اور شاعر کی محنت کام آئے۔
اپنی رائے کو الفاظ کا جامہ پہنانے سے پہلے پوسٹ پر دیگر تبصرہ جات ملاحظہ کریں۔ اور موازنہ کریں کہ آپ نے جو رائے قائم کی ہے وہ کس حد تک درست ہے۔ اگر پہلے سے پوسٹ پر کوئی تبصرہ موجود نہیں ہے تو صرف انہیں اغلاط کی نشان دہی کریں جن کے بارے میں آپ پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اعتراضات آپ کی ناسمجھی کا نتیجہ نہیں ہیں۔

پختہ کار کا لحاظ
یاد رکھیں جو شعر آپ پر نہیں کھلا اس پر رائے دینے میں حتیٰ الامکان تاخیر کریں۔ یہاں تک کہ آپ سے زیادہ ماہر مبصر کا اس پر تبصرہ آ جائے۔لیکن اگر آخر تک آپ کا اشکال باقی رہے تو ایسے اشکال کو جانے مت دیں۔ بلکہ طالب علمانہ انداز میں استفسار فرما لیں۔اور اس سے آپ کی شخصیت متاثر نہیں ہوگی کیونکہ آپ ابھی مبتدی ہیں ماہر نقاد نہیں۔😉 اس معاملے میں پختہ کار کا لحاظ، مبتدی سے زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ کسی پختہ کار کے کلام میں لغو یا بے ربط شعر پائے جانے کا امکان مبتدی کی نسبت کم ہوتا ہے۔
یہ سوچ غلط ہے کہ جو شعر آپ کو سمجھ نہیں آیا اس کا کوئی مفہوم ہی نہ ہو یا جن دو مصرعوں میں آپ ربط تلاش نہیں کرسکے وہاں ربط موجود ہی نہ ہو۔ ہر کسی کے سوچنے، سمجھنے، چیزوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا الگ زاویہ ہوتا ہے اس لیے نقاد کو چاہیے کہ شعر کا ہر زاویے سے جائزہ لے کر اس پر لب کشائی کرے۔
یہ اعتراض غلط ہے کہ دیواریں کیسے سن سکتی ہیں آنکھیں کیسے سونگھ سکتی ہیں کان کیسے دیکھ سکتے ہیں شاعری اور ادب کی دنیا میں اندھے دیکھ سکتے ہیں بہرے سن سکتے ہیں اور گونگے بول سکتے ہیں۔ شاعر کے لئے زمین کو اوپر اور آسمان کو نیچے لانا کوئی بڑی بات نہیں۔ آپ ان استعارات کے پیچھے چھپے مفاہیم و معانی تک پہنچنے کی کوشش کریں یا اسے دوسرے ماہرین پر چھوڑ دیں۔
اگرچہ دور کی کوڑیاں ملا کر شعر کو درست اور عمدہ ثابت کرنا نقاد کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں۔ لیکن جلد بازی میں شعر کو بے ربط، ناقابل فہم یا خلافِ واقعہ قرار دے دینا نقاد کے لیے اور بھی معیوب ہے۔ شاعر نے بے معنیٰ الفاظ کا مجموعہ آپ کے سامنے پیش نہیں کیا، بلکہ اس نے کسی خیال، کسی مضمون پر مشق کی ہے۔ اگر اظہار میں کمزوری رہ گئی ہے تو غور و فکر سے یہ اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا جو نہیں کہہ پایا۔

مبتدی کا لحاظ
پختہ کار کے کلام میں اغلاط کا امکان کم ہوتا ہے۔ لیکن آپ چونکہ تنقید کے لئے بیٹھے ہیں اس لئے اسے سوکھا بھی نہیں جانے دینا چاہتے تو آپ نہایت باریک چھلنی لگا کر کوئی نہ کوئی دقیقہ نکال لاتے ہیں۔ اس کے برعکس مبتدی کے کلام میں عیوب زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر یہاں بھی آپ باریک چھلنی لگا کر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا عیب نکال کر اس کے سامنے عیوب کے ڈھیر لگا دیتے ہیں تو وہ دلبرداشتہ ہو جائے گا۔ مبتدی کوشش کرنے اور اپنی کوشش کو تنقید کے لیے پیش کرنے پر داد کا مستحق ہوتا ہے۔ یہاں صرف زیادہ اہم اور فاش اغلاط کی نشاندہی کریں اور مبتدی شاعر کو پہلے انہیں دور کرنے کی ترغیب دیں۔ بعض دوست جلد بازی میں فتوی صادر فرما دیتے ہیں کہ "آپ میں شاعری کا جوہر ہی نہیں ہے، آپ اس میں وقت ضائع نہ کریں۔" یہ غلط ہے جوہر شناسی کی بھاری ذمہ داری ماہر نقاد پر چھوڑ دینی چاہیے۔
تمام باتیں ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اب آپ اپنی رائے کو الفاظ کا جامہ پہنانے جا رہے ہیں۔ تو الفاظ کا چناؤ نہایت احتیاط اور سلیقے سے کریں لہجہ مخلص اور ہمدردانہ ہو آپ کے الفاظ حسد بغض یا طنز کی چغلی نہ کھا رہے ہوں۔
رائے کو مشورے کے طور پر پیش کریں اور اسے اپنے مبلغ علم کا حاصل بتائیں، ختمی فیصلہ قرار نہ دیں۔ اگر شاعر کلام کے دفاع میں کچھ کہے تو ممکن ہو تو اسے قبول کریں۔ لمبی بحث میں نہ پڑیں نہ تو آپ بارڈر پر کھڑے ہیں اور نہ ہی یہ کوئی جنگ ہے جسے جیتنا ضروری ہو۔ آپ نے اپنی رائے پیش کردی ہے قبول کرنا یا نہ کرنا صاحبِ کلام کا اختیار ہے۔

تبصرہ لکھتے ہوئے ایک اور نقطہ نظر ۔
نثر نگاری کی مشق
اچھے اور عمدہ الفاظ کا انتخاب کریں انداز شائستہ اور شستہ ہو جملوں کی بُنت اور ترتیب نثر نگاری کے اصولوں کے مطابق ہو تا کہ آپ کا تبصرہ ایک عمدہ نثر پارہ معلوم ہو یعنی تبصرہ کرتے ہوئے آپ کی نثر نگاری کی مشق بھی ہوتی رہے زیادہ نہیں تو کم از کم آپ کا لکھا ہوا اردو محاورے کے مطابق اور لغت اور گرامر کی اغلاط سے پاک ہونا چاہیے۔

آخر میں کچھ گزارشات برائے اصلاح اپنا کلام پیش کرنے والوں کی خدمت میں۔
جب آپ نے تنقید کے لئے اپنا کلام پیش کیا ہے تو یقیننا آپ تنقید کی اہمیت سے واقف ہیں تنقید و اصلاح کے لیے لکھا گیا ایک جملہ واہ واہ کی ہزار ڈونگروں سے افضل ہے داد و تحسین یقینا آدمی کو مزید لکھنے پر ابھارتی ہے تو تنقید و اصلاح اچھا لکھنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ اور یقینا ہر سمجھدار محض لکھتے رہنے پر اچھا لکھنے کو ترجیح دے گا۔ اس لئے اگر کسی استاد یا مبتدی نقاد کی طرف سے خلافِ طبع کوئی بات پیش آ جائے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔ بعض اوقات ہم ایسے تبصرے بھی پڑھتے ہیں۔ جنہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ صاحب رائے کا شعر و ادب سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ تو ایسوں سے الجھنے کی بجائے ہمیں اللہ تعالی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جس نے ہمیں کچھ لوگوں سے بہتر ذوق اور سمجھ عطا کی ہے۔ اور یقین جانیں ایسے بے تکے تبصروں پر بعض اوقات کسی ماہر نقاد کا ایسا جواب آ جاتا ہے کہ جس میں ہم جیسے مبتدیوں کے سیکھنے کا بہت سامان ہوتا ہے۔ اور مقصد بھی تو سیکھنا ہی ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا کوئی شعر کسی پر بھی نہیں کھلا تو آپ اس پر وضاحت پیش کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن اس بات پر بھی غور کریں کہ کہیں آپ کے ابلاغ میں کمی تو نہیں رہ گئی۔ کیونکہ تمام احباب کے فہم کو ناقص قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور اسے بہتر کرنے کی کوشش کریں کہ آپ ہر جگہ وضاحت کے لیے موجود نہیں ہوں گے۔
فیس بک ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر کچھ بھی لکھ کر ڈال دیں تو کچھ احباب اس پر واہ واہ فرما جاتے ہیں۔ لیکن ماہرینِ فن کی داد و تحسین کے حقدار آپ اس وقت ہی قرار پاتے ہیں جب آپ تنقید کی بھٹی سے گزر کر کندن بن چکے ہوں۔ اس لئے ہر قسم کی تنقید کو برداشت کریں اور اطمینان رکھیں کہ کسی رائے کو قبول یا رد کرنے یا کسی کے مشورے پر اپنے کلام میں ردوبدل کرنے نہ کرنے کا اختیار، آپ اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔

وضاحت:-
تنقید ایک مستقل علم ہے اور اس پر بہت سی کتابیں موجود ہیں جو دوست سنجیدگی سے اس میدان میں اترنا چاہتے ہیں وہ ان کا مطالعہ ضرور کریں۔ میں نے اسی گروپ (شاعری سیکھیں اور سکھائیں) کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تجربات کی روشنی میں چند خیالات کو ترتیب دیا ہے۔ میرے الفاظ کو کوئی استناد حاصل نہیں ہے۔ تشنگان علم کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔
تحریر، شاعری پر تنقید کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے۔ نثر نگاری پر تنقید کے حوالے سے جب کبھی توفیق ہوئی کچھ عرض کروں گا فی الحال اسی سے رہنمائی لینے کی کوشش کی جائے۔
ایک تحریر میں تمام چیزوں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا جو چیزیں رہ گئی ہیں دوست احباب ان کی نشان دہی فرما دیں تا کہ ایک ہی پوسٹ کے تحت موضوع کے متعلق زیادہ سے زیادہ مواد جمع ہو جائے۔

شہزاد احمد کھرل

۔۔۔۔۔۔۔
تحریر میں رموز اوقاف کی اہمیت و ضرورت

از: فاروق اعظم عاجز کھگڑیاوی‏،  شعبہ انگریزی، دارالعلوم دیوبند

انسان جب آپس میں گفتگو کرتاہے، تو اس کے مختلف اسلوب و انداز ہوتے ہیں، بات کبھی مثبت ہوتی ہے، تو کبھی منفی، کوئی لمحہ غم کا ہوتاہے، تو کوئی خوشی کا، لہجہ کبھی سخت ہوتا ہے، تو کبھی نرم، کوئی بات اسے تعجب میں ڈالتی ہے، تو کبھی اسے خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے.  غرض کہ روز مرہ میں نرمی، سختی، خوشی، غم، تعجب، استفہام، خوف، غصہ.  اس طرح کے نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ پائے جاتے ہیں اور یہی حال قلم کابھی ہے،  اس لیے کہ قلم بھی انسان کی خاموش زبان ہے اور زبان کے زریعے سے نکلنے والے دلی احساسات وجذبات کا ترجمان بھی۔
  انسان جہاں اپنی گفتگو کوموٴثر بنانے کے لیے اس کے آداب کی مکمل رعایت کرتاہے، وہیں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ زبان کے ساتھ اپنے قلم سے نکلی ہوئی تحریر میں بھی اسے ملحوظ رکھے،  اس لیے کہ ایک قلم کار اپنی تحریر کے ذریعے دنیا کو عظیم پیغام دیتاہے اور اپنے طبقے کو ترقیات کے بامِ عروج پر دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے اور یہ اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک کہ آلہ کو آلہ کے اصول کے مطابق نہ چلایا جائے، یعنی قلم بھی ایک آلہ ہے،  بل کہ ابلاغ کا ایک موٴثر ذریعہ ہے اور اس کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں جن کی رعایت ناگزیر ہے.  یہی وجہ ہے کہ ہر نبی اپنے زمانہ کا سب سے بڑا فصیح وبلیغ ہوا کرتا تھا جس کی شہادت قرآن میں صراحتاً موجود ہے۔
   قلم کے مسافر کے لیے جس طرح دیگر اصول وضوابط کی ہم رکابی ضروری ہے، اسی طرح اپنی تحریر میں ”رموز اوقاف“ کا توشہ بھی ناگزیر ہے اور نہ صرف رموز اوقاف کی محض معلومات بل کہ ان کا برمحل استعمال مقصود ہے۔
  آج ایک طبقہ تو شاید ”رموز اوقاف“ کے رموز سے واقف ہی نہیں اور اگر ہے بھی، تو ان کی رعایت ”آٹے میں نمک“ کے برابر ہے.  ہاں ادبی تحریروں میں تو ان کی رعایت کی جاتی ہے،  لیکن رموز اوقاف کا تعلق محض ادبی تحریروں ہی سے نہیں ہے بل کہ مطلق اس کا تعلق کسی زبان کے تحریری مواد سے ہے۔
   اسی جذبے کے پیش نظر رموز اوقاف سے متعلق مختلف کتابوں۔ بطور خاص بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کی معروف کتاب ”قواعد اردو“ کو سامنے رکھ کر چند باتیں سپرد قرطاس کی جاتی ہیں۔
  تحریروں میں استعمال ہونے والی علامات اور اس کے نام:
                        (۱)       سکتہ                  (،)                               (۲)       وقفہ                  (؛)
                        (۳)      رابطہ                  (:)                                (۴)      تفصلیہ    (:-)
                        (۵)      ختمہ                   (۔/․)                           (۶)       سوالیہ                 (؟/?)
                        (۷)      مجائیہ،ندائیہ         (!)                               (۸)      قوسین   (( )/())
                        (۹)       خط                    (ـــــــ)                          (۱۰)     واوین                 (” “)
   سکتہ(،)
ان چھوٹے چھوٹے جملوں کے درمیان اس کا استعمال ہوتا ہے جن سے مل کر ایک بڑا جملہ بنتا ہے اورایک بات مکمل ہوجاتی ہے۔ جیسے:-
استاذ محترم آئے، درس گاہ میں داخل ہوئے، کرسی پر بیٹھے اور سبق پڑھایا۔
     مختلف اسما کو جوڑنے کے لیے بطور حرف عطف کے بھی استعمال ہوتا ہے،  خواہ وہ معطوف معطوف علیہ ہوں۔ جیسے:-
حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی ایک ہی شمع کے چار پروانے تھے۔
یا اسم مصدر ہوں۔ جیسے:-
لڑنا، جھگڑنا اور گالی دینا بری بات ہے۔
یا ایک موصوف کی کئی صفتیں ہیں، تو متعدد صفات کے درمیان اس علامت کو لائیں گے۔ جیسے:
عادل ذہین، محنتی، با ادب اور خوش خلق طالب علم ہے۔
اسی طرح کئی منادیٰ ہوں، تو ان کے درمیان میں بھی اسے لایا جاتا ہے۔ جیسے:-
میرے بھائیو!، بزرگو! اور دوستو!
ایسے ہی شرط وجزا اور صلہ وموصول کے درمیان اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:-
جب حق آیا، تو باطل خود بخود چھٹ گیا۔ انسان وہ ہے ، جس کے اندر انسانیت ہو۔
  اسی طرح اسے مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کے درمیان بھی لایا جاتا ہے۔ جیسے:-
آج کا دور، ترقیاتی دور کہلاتا ہے، لیکن سکون مفقود ہے۔ انگریز ہندوستان سے تو گئے، مگر دو ٹکڑے کرکے۔
درس گاہ پابندی سے آؤ، پر موبائل نہ لاؤ۔
   مبتدا اور خبر کے درمیان میں جب موصوف اور صفت کا اشتباہ ہونے لگے، تو اس وقت سکتہ کا لانا ضروری ہے۔مثلاً:  اردو زبان میں سیرت کی سب سے شاہ کار کتاب، سیرت النبی ﷺ  ہے۔
ہندوستان کے اسلامی مصنّفین میں ایک نمایاں نام، مولانا مناظراحسن گیلانی کا بھی ہے۔
وقفہ(؛)
اس کا استعمال جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان ہوتا ہے، جہاں سکتہ کے (،) بالمقابل زیادہ ٹھہراؤ کی گنجائش ہو۔جیسے:
”سرخیاں بنانے کے طریقے؛ سرخیوں کی قسموں؛ ان کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں؛ اخبار کی زینت کاری وغیرہ کے مسائل کو اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری کو کسی خشکی کا احساس نہیں ہوتا۔“
اسی طرح جملوں میں ”ورنہ“، ”اس لیے“، ”لہٰذا“، ”اگرچہ“، ”لیکن“ وغیرہ جیسے ربط دینے والے الفاظ سے پہلے وقفہ کی علامت ہوگی۔ جیسے:
مشک کی تعریف کرنا خود اپنی قیمت کو بڑھانا ہے؛ ورنہ مشک تعریف وتوصیف سے اعلیٰ اور کہیں برتر وبالا ہوتا ہے۔
مستقل مزاجی سے تھوڑا کام بھی بہتر ہے اس کام سے جو مستقل مزاجی سے نہ ہو؛ اس لیے کسی بھی فن میں کمال پیدا کرنے کے لیے استقلال ضروری ہے۔
  ادب و احترام، پابندی وقت انسان کو آگے بڑھانے والی چیزیں ہیں؛ لہٰذا: ادب کے ساتھ وقت کی انمول دولت کی حفاظت کرو!
  محنت اور جدوجہد کو نہ چھوڑو؛ اگرچہ بھوک کی تکلیف برداشت کرنا پڑے اور رات کی نیند قربان کرنا پڑے۔
دنیا روشن پیدا کی گئی ہے؛ لیکن یہی روشنی کبھی تاریکی میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔
  رابطہ (:)
مقولہ یا کہاوت وغیرہ کو بیان کرنے کے لیے اسے استعمال کیاجاتا ہے۔ جیسے:
علامہ اقبال نے کہا:
”دیوبندی نہ فرقہ ہے نہ مذہب، ہر معقول پسند، دین دارآدمی کا نام دیوبندی ہے“۔
سچ ہے:
”وقت ایک ان مول سرمایہ ہے“۔
کہتے ہیں:
”زبان شیریں ملک گیری“۔
   تفصلیہ (:-)
کسی لمبے اقتباس یا کسی فہرست کو پیش کرتے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا استعمال اب متروک سا ہوگیا ہے ؛ لیکن پرانی تحریروں میں اس کا استعمال کثرت سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ جیسے:
ہمارے ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں:- مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی وغیرہ۔
اسی طرح جملوں میں ”خلاصہ کلام یہ ہے“، ”مختصر کلام یہ ہے“، ”غرض کہ“ کی جگہ بھی یہ کام آتا ہے۔ جیسے: ہندوستان میں مسلمان آئے، یہاں کی زمین ہموار کی، خونِ جگر سے اسے سینچا، بے شمار خوب صورت عمارتیں تعمیرکرائیں:- آج بھی بڑے بڑے فن کار محوِحیرت ہیں۔ ایسے ہی ”مثلاً“ یا ”جیسے“ کی جگہ بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
صرف علم ہی کار آمد نہیں ہے:- ابلیس ہی کو لے لیجیے! ختمہ (۔/․)
اس علامت کو وقف تام بھی کہا جاتاہے۔ اس کا استعمال بات یا جملہ کے مکمل ہوجانے پر کیا جاتا ہے۔ جیسے:
مذہبِ اسلام امن عالم کا عَلَم بردار ہے۔ ہندستان گنگا جمنی تہذیب کا عظیم گہوارہ ہے۔
  نوٹ: (۔)
یہ علامت عام طور پر اردو زبان میں مستعمل ہے؛ لیکن عربی و انگریزی زبان میں (․) اس علامت کو استعمال کیا جاتا ہے۔
واوین (” “)
کسی مضمون میں موضوع کی مناسبت سے بعینہ کسی مصنف و ادیب کے قول یا کسی کتاب کے اقتباس کو نقل کرتے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
”شورش لکھتے ہیں:
ایک نورانی جزیرہ ہے، جس میں فضیلتوں کے آبشار بہ رہے ہیں، احد سونے کا پہاڑ ہے، اس کے دامن میں شہدا کی جھیل ہے، اس جھیل میں چاندی کا پانی بہ رہا ہے اور سونے کی موجیں اچھل رہی ہیں۔“
ٹیپو سلطان فرماتے ہیں:
”گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔“
   اسی طرح جملوں کے درمیان میں، اہمیت کے پیش نظر، کسی خاص نام و مقام کو بھی واوین میں لکھاجاتا ہے۔ جیسے:
”عصری علوم سے مسلمانوں کو آراستہ کرنے میں ”سرسید احمد خاں“ کا اہم کردار رہا ہے، جو ”علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی“ کی شکل میں آج ”ہندستان“ میں قائم ہے“۔
    فجائیہ وندائیہ (!)
کسی خاص کیفیت اور جذبے  کے اظہار کے وقت یہ علامت لگائی جاتی ہے۔ جیسے:
حیرت، خوف، غصہ اور حقارت وغیرہ کے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے، ایسے ہی جذبے  کی شدت میں کمی و بیشی کے اعتبار سے ایک سے زیادہ علامتوں کا استعمال بھی ہوتا ہے۔جیسے:
سبحان اللہ!
بہت خوب!
معاذ اللہ!
اللہ پناہ!
خبرلیتاہوں!
بس کرو!
رہنے دو!!
فرقہ واریت اور ملک کی ترقی!!! محال ہے.
ندائیہ:(!)
خطاب کے وقت اسی علامت کو ندائیہ کہا جاتاہے۔ جیسے: بچو! محنت، مشقت، ادب اور وقت کی قدر تمھیں  ستاروں سے آگے پہنچاسکتی ہے۔
سہیلیو! آنکھیں ترسیں گی ساری عمر ساتھ کی جھولا جھولنے والیوں کو، دل ڈھونڈے گا زندگی بھر پاس بیٹھ بیٹھ کر اور لیٹ لیٹ کر کہانی سننے والیوں کو!۔
سوالیہ (؟/?)
کچھ پوچھنے یا دریافت کرنے کے وقت اس علامت کا استعمال ہوتا ہے۔
نوٹ:
داہنی طرف سے لکھی جانے والی زبانوں میں اس کی علامت اس طرح (؟) ہوگی۔ جیسے:
عربی، فارسی اور اردو وغیرہ.
اور بائیں طرف سے لکھی جانے والی زبانوں میں اس طرح (?) مثلاً:
آپ کا نام کیا ہے؟
تقریر میں عطاء اللہ شاہ بخاری اور تحریر عبدالماجد دریا آبادی بننا چاہتے ہیں؟
عقابی روح آپ کے اندر بے دار ہے؟
کبھی آپ نے سوچا؟ کہ آپ کی منزل آسمانوں میں ہے؟۔
   خط ()
جملہ معترضہ کے لیے اسے  کام میں لایا جاتا ہے  ۔جیسے:
جگن ناتھ آزاد اور فراق گورکھپوری کا کہنا ہے- اگرچہ ان کی اپنی رائے ہے کہ علامہ اقبال شاعر اسلام نہیں؛ بل کہ شاعر اعظم تھے۔
     قوسین (( ))
اس کا کام بھی تقریباً وہی ہے، جو خط کا ہے؛ ہاں کسی غیرمانوس لفظ کی وضاحت کے لیے عام طور پر قوسین ہی کااستعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
وہ ”انار“ (دارالعلوم دیوبند) استعماریت سے آزادی کی جنگ کا اعلان بھی تھا اور اپنے قومی مذہبی، تہذیبی تشخص کی بقا کی جدوجہد کا آغاز بھی۔
عبدالرحمان (صدر سجاد لائبریری دارالعلوم دیوبند) ذہین وفطین، محنتی اورانتہائی فعال شخص ہے.
نقطے (․․․․․)
کسی محذوف عبارت کی جگہ اس کا استعمال ہوتا ہے؛ یعنی کسی لمبی عبارت کو نقل کرتے وقت، اختصار کے پیش نظر عبارت کا کچھ حصہ نقل کرتے ہیں اور بقیہ عبارت کی جگہ ان نقطوں کا استعمال کرتے ہیں. عام طور پر قلتِ جگہ یا قلتِ وقت کی بنا پر ایسا کیا جاتا ہے۔ جیسے:
اردو شعراء کے مشہور تذکرہ نویس ”محمدحسین آزاد“ نے ”ولی دکنی“ کو شعراء کا ”باوا آدم“ کہا ہے اور ․․․․․
    اسی طرح جب کسی شعر وغیرہ کو مضمون کی سرخی بنانا ہو اور مقصد صرف آدھے مصرع ہی سے پورا ہورہا ہو، تو بھی نقطے کا استعمال کرتے ہیں.  ہاں اگر مصرع کے جزو اول کو لینا ہے،  تو جزو آخر کی جگہ نقطے لگائیں گے اور جزو آخر کو لینا ہو،  تو جزواوّل کی جگہ اس کا استعمال ہوگا۔ جیسے:
ع- ․․․․․․لوح وقلم تیرے ہیں۔    
  ع-       من اپنا پرانا پاپی ہے․․․․․․
چند علامات اور جن کاتحریروں میں کثرت سے استعمال ہے۔
  (۱)       ؎            علامت شعر وہندسہ                        (۲)       ع         علامت مصر
  (۳)       ؔ           تخلص                                         (۴)      ۔          علامت ہندسہ.
(۵)      //        علامت ایضاً (بھی)     
       (۶)       ۱۲         بات ختم ہونے کی علامت
   (۷)      /          تاریخ یااعداد شمار کے اختتام پر
(۸)     ص، ص صفحہ کا مخفف
     (۹)       ج         جلد کا مخفف                                  (۱۰)     ق م       قبل مسیح کا مخفف
    (۱۱)      م          متوفی کا مخفف           
  (۱۲)     ف        فوت کا مخفف
     (۱۳)     ر (وفات) رخصت کا مخفف            
(۱۴)     پ        پیدائش کا مخفف
  (۱۵)     ء           عیسوی کا مخفف               
  (۱۶)     ھ         ہجری کا مخفف
(۱۷)     الخ        الیٰ آخرہ کا مخفف              
(۱۸)     اہ          انتہی کا مخفف
            (۱۹) وصلعم         صلی اللہ علیہ وسلم کا مخفف      (۲۰) عل          علیہ السلام کا مخفف
         (۲۱)     رضی اللہ عنہ کا مخفف   
                   (۲۲)     رحمة اللہ علیہ کا مخفف
            (۲۳)    ج/ص   جلد و صفحہ کا مخفف
            رموز اوقاف کے متعلق یہ چند باتیں تھیں جو سپرد قلم کردی گئیں، اس سے پہلے بھی اس سلسلے کی بے شمار تحریریں آئی ہیں اورآئندہ بھی آتی رہیں گی؛ لیکن مقصداتنا ہے کہ ہم اپنی تحریروں میں ان کا لحاظ کرنے لگیں۔ تحریر کے لیے جہاں تحسین خط اور صفائی ستھرائی ضروری ہے، وہاں رموز اوقاف کی پابندی بھی انتہائی ناگزیر ہے؛ ایک قلم کار کی تحریر اپنی معنویت کے ساتھ ساتھ ظاہری خوبیوں سے بھی معمور ہو، تو پڑھنے والے کا ذہن و دماغ فطری طورپر متاثر ہوتا ہے اور وہ مصنف کی بات کو لیتا ہے، اس کے پیغام سے ملنے والے لعل وجواہر سے اپنا دامن دل بھرتا ہے؛ گویا لکھنے والا جس مقصد کے پیش نظر کچھ لکھتا ہے اس میں اسے بھرپور کامیابی ملتی ہے اور ایک قلم کے شہسوار کے لیے اس سے بڑھ کرکوئی فتح نہیں ہوسکتی۔
$ $ $
------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1‏، جلد: 92 ‏، محرم الحرام 1429 ہجری مطابق جنوری 2008ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔

اردو تلمیحات کا حکائی پسِ منظر...34

اردوادب میں یوں تو بہت سی ترکیبیں، استعارے، مثالیں، تعبیریں اور بہت کچھ بوقت ضرورت شامل ہوتا گیاجس کی اپنے اپنے وقت میں بہت اہمیت رہی اور ان سے اردو ادب کا دامن مالامال ہوتا گیا۔ ان ہی خوبصورت اضافوں میں سے ایک ’تلمیح‘جیسی صنف بھی ہے۔جسے شعرو نثر میں آسانی اور کم وقت میں بات سمجھانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔اردو میں  پہلے پہل تو یہ اجنبی صنف تھی۔مگر اس کے بعد جیسے اسے قبول عام حاصل ہوتا چلا گیا۔بلکہ اسے ایک مستقل صنف اور دبستان کی حیثیت حاصل ہوگئی۔اساتذۂ فن نے اسے اپنی خصوصی دل چسپی کاموضوع بنایا اور اس کی نذر اپنی بہترین کوششیں کردیں۔نیز وہ اپنے وقت کا اہم حصہ اس کے لیے صرف کرنے لگے۔

تلمیحات کی ضرورت و اہمیت کے متعلق بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اس کا استعمال کلام میں فصاحت و بلاغت اور حسن پیدا کر نے کے لیے ہوتا ہے۔اس سے مختصر انداز اور الفاظ میں بڑی بڑی باتیں بتادی جاتی ہیں اور ان حقائق کو سمو دیا جاتا ہے جنھیں بتانے اور سمجھانے کے لیے کئی کئی صفحات کی ضرورت پڑتی ہے۔نیز اس طرح سے شاعر اور فن کا ر کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم نے جا بجا تلمیحات کا استعمال کیا ہے اور اہل زبان کو ان واقعات کی جانب اشارہ کیا ہے جو ان سے پہلے ماسبق میں گزر چکے تھے۔نیز تلمیحات ہمیں  بیجا لمبی لمبی تشریحوں سے بچاکر کفایت وقت، ایجاز اور تاثیر کا فیض پہنچاتی ہیں۔ عربی، فارسی اور برصغیر کی زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عام ہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ یہی بات ہے کہ اردوغزل نے تلمیح کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ اردوکے چھوٹے بڑے تمام شعرا کے ہاں اس کے استعمال کا رواج ملتاہے۔

تلمیحات ادب کی جان ہیں خواہ نثر میں ہوں یا نظم میں ، ان معنیٰ خیز اشاروں سے ادیب و شاعر اپنے کلام میں بلاغت کی روح پھونکتے ہیں۔

زیر نظر مقالے میں  ’تلمیحات‘کی ابتدا، آغاز و ارتقا، طریقۂ استعمال، مابعد استعمال ،کلام میں خوب صورتی، آج کے عہد میں تلمیحات کی اہمیت و افادیت،  صورت حال جیسے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔

آغـــاز:

تلمیح کی لغوی تعریف اور معانی:

تَلمِیح۔(عربی)عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفصیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر ہے اردو میں سب سے پہلے اس کا استعمال1851 کو ’عجائب القصص‘ میں کیا گیا۔

تلمیح کے لغوی معنی رمز اور اشارہ کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں کسی تاریخی واقعہ،  مذہبی حکم، لوک داستانی کردار وغیرہ کو اس انداز سے نظم کیا جائے کہ شعر کا مضمون پُرلطف اور زوردار ہو جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں دو ایک الفاظ کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ان کو پڑھتے ہی پورا واقعہ، قصہ، معاملہ یاحکم وغیرہ قاری کے ذہنی گوشوں میں متحرک ہو کر اس کی سوچ کو شعر میں موجود مضمون میں گم کر دیتا ہے۔ تلمیح کو حسن ِ شعر کا درجہ حاصل ہے۔ شعر میں تلمیح سے متعلقہ لفظ یا الفاظ کو جو نئے اور مخصوص مفاہیم ملتے ہیں اس سے ہی انھیں اصطلاح کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

تلمیح کی اصطلاحی تعریف:

اصطلاح میں ’تلمیح‘کی تعریف یہ ہے کہ شاعر و ادیب اپنے کلام و گفتگو میں کسی مسئلٔہ مشہور، کسی قصے، مثل شے اصطلاح نجوم، قرآنی واقعہ یا حدیث کے تناظر میں  کسی بات کی طرف اشارہ کرے، جس سے مکمل واقفیت کے بغیر معانی سمجھ میں ہی نہ آسکیں۔

تلمیح کا آغاز و ارتقا:

ادبیات عالم میں تلمیح کا آغاز بہت قدیم زمانے سے ہے۔چنانچہ قدیم ادب اور زبان کی کتاب قرآن کریم نے اس کا سب سے پہلے استعمال کیا اور رہتی دنیا تک کے لیے اس کی نظیر ثبت کردی۔ چنانچہ ایک تجزیے کے مطابق قرآن کریم میں جتنی تمثیلیں، گزشتہ قوموں کے واقعات اور قصے ہیں ایک کثیر تعداد میں وہ سب تلمیحات ہیں او راحکام وشعائر کی آیات سے زیادہ کہیں ان کا استعمال ہوا ہے۔ یہ فصاحت و بلاغت کی ایک اعلا و اہم ضرورت کی تکمیل ہے۔اسی کی اہمیت و اعجاز ہے کہ قرآن کریم کے بعد ساری دنیا کے ادب میں اس کا استعمال کیا جانے لگا اور قلم کاروں نے مختصرانداز میں مافی الضمیر کی ادائے گی کے لیے اس کو اختیار کیا۔

ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی اس سلسلے میں  رقم طراز ہیں:

’تلمیح علم بیان کی نہایت اہم صنعت ہے۔ اس کی قدامت اس طرح مسلم الثبوت ہے جیساکہ تمدن و معاشرت کی تاریخ۔ابتدائے آفرینش سے اس صنعت کا گہرا لگائو انسانی تمدن سے رہا ہے۔ ارتقاکی ہر منزل میں اس کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی جن قوموں میں الفاظ نہیں تھے وہ اپنے خیالات و جذبات کو سمجھانے کے لیے ہاتھ پائوں سے اشارہ کر تی تھیں اور جب انھیں زبان ملی تو انھوں نے اپنی حرکات و سکنات کو تلمیح کا نام دیا۔اس لیے کہ تلمیحات نے وہی کام کیا جو ان کے اشارے کرتے تھے۔‘

تلمیحات کی ضرورت:

تلمیح کی ضرورت کلام میں فصاحت و بلاغت اور حسن پیدا کر نے کے لیے ہوتی ہے۔اس سے مختصر انداز اور الفاظ میں بڑی بڑی باتیں بتادی جاتی ہیں اور ان حقائق کو سمو دیا جاتا ہے جنھیں بتانے اور سمجھانے کے لیے کئی کئی صفحات کی ضرورت پڑتی ہے۔نیز اس طرح سے شاعر اور فن کا ر کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم نے جا بجا تلمیحات کا استعمال کیا ہے اور اہل زبان کو ان واقعات کی جانب اشارہ کیا ہے جو ان سے پہلے ماسبق میں گزر چکے تھے۔نیز تلمیحات ہمیں  بیجا لمبی لمبی تشریحوں سے بچاکر کفایت وقت، ایجاز اور تاثیر کا فیض پہنچاتی ہیں۔ عربی، فارسی اور برصغیر کی زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عام ہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ یہی بات ہے کہ اردوغزل نے تلمیح کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ اردوکے چھوٹے بڑے تمام شعرا کے ہاں اس کے استعمال کا رواج ملتاہے۔

تلمیحات ادب کی جان ہیں خواہ نثر میں ہوں یا نظم میں ، ان معنیٰ خیز اشاروں سے ادیب و شاعر اپنے کلام میں بلاغت کی روح پھونکتے ہیں۔ افادات سلیم میں لکھا ہے:

’تلمیحات بلاغت کا نشان ہیں۔ بلاغت کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ  میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دی جائے نیز کم سے کم الفاظ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ معانی سمجھے جائیں اور یہ بات تلمیحات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔چنانچہ جس زبان  میں تلمیحات کم ہیں یا بالکل نہیں ہیں، وہ بلاغت کے درجے سے گری ہوئی ہے۔‘

تلمیحات کے ذریعے شاعر کلام میں تاثیر پیدا کر تا ہے نیز اشعار کو شاندار، جان دار اور با وقار بناتا ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایک تلمیحی شعر غیر تلمیحی شعر کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ اور خوش نما ہوتا ہے۔ اسی طرح نثری کلام میں بھی اس کی کارفرمائی ہے۔تلمیحات کا کمال یہ بھی  ہےکہ وہ باذوق افراد و اشخاص کو چند ساعتوں میں پورے پس منظر سے آگاہ کر دیتی ہیں۔ چنانچہ اگر کسی قرآنی واقعے کا ذکر کسی شعر میں ہوا تو نہ صرف قرآن کی جانب سامع کا ذہن جائے گا بلکہ قرآن میں موجود اس قصے کا مذاکرہ بھی اس کے ذہن میں آجائے گا۔

اردو شاعری میں تلمیحات اور ان کا حکائی پس منظر:

ا ب ذیل میں اردو ادب میں موجود تلمیحات اور ان کے پس مناظر میں موجود واقعات/حکایتوں کی تفصیل ملاحظہ فرمایے:

حیدر علی آتش کا شعر ہے:

عاشق اس غیرت بلقیس، کا ہوں میں آتش

بام تک جس کے کبھی، مرغ سلیماں نہ گیا

اس شعر میں ہے اشارہ ہے قصۂ بلقیس و سلیماں کی جانب۔جس کی ترجمانی قرآن کریم کی سورۃ نمل میں بالتفصیل کی گئی ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اس شعر میں آتش نمرو دکی تلمیح ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

واقہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام نے اپنے شہر کے سب سے بڑے بت کدے میں پتھر کی مورتوں کو توڑدیا پھوڑدیاتو اس سے پوری قوم میں غم و غصہ کا عالم بپا ہو گیا۔ سب لوگ حضرت کو برابھلا کہنے لگے۔ جب اس سے بھی کام نہ چلا تو بادشاہ وقت کی طرف سے آپ کو جلا ڈالنے کا حکم صادر ہوا۔چنانچہ اس واقعے کاخلاصہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیاہے:

حرقوہٗ وانصرو اٰلھتکم ان کنتم فاعلینOسورۃ انبیا۔24

’اس کو جلا ڈالو اور اپنے اپنے خدائوں کو بچائو ؟اگر تم سے کچھ ہو سکتا ہے تو۔‘

اس کے بعد متعدد تفاسیر و روایات میں موجود ہے کہ شاہی فرمان کے مطابق شہر ے کےسب سے بڑے چوک پر آسمانوں کو چھونے والی آگ جلائی گئی جس میں ’عشق ‘یعنی ’خلیل خدا‘بے خطر کود پڑا۔

اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم ہے اذاں لا الہ الا اللہ

اس شعر میں ایک نہایت باریک اور معرکۃ الآرا واقعے کی جانب سے اشارہ ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں مسلمان بتوں کی محبت سے رفتہ رفتہ جدا ہوئے تھے۔چنانچہ وہ نماز کے عالم میں بھی بغلوں میں بت لے کر آتے تھے۔مگر اس سے شارع اسلام نہ گھبرائے اور نہ اپنے مشن سے پیچھے بلکہ صدائے ربانی اذان لا الہ اللہ دیتے رہے اور خدائے لا شریک کی حقیقت و عرفان دلوں میں بٹھاتے رہے۔

آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

نامعلوم

اس شعر میں چاہ یوسف کی تلمیح کا استعمال ہے نیز اس میں حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ان بھائیوں کی طرف جنھوں نے معصوم یوسف کو کنوئیں میں ڈال دیا تھا اور راتکو روتے ہوئے گھر پہنچے۔بہانہ بنایا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔

ماہ مصر، شاہ مصربلکہ ماہتاب مصر حضرت یوسف علیہ الصلاۃوالسلام کے واقعے سے کون ناواقف ہے۔ا ن کی معصومیت کے دنوں میں ہی بھائیوں نے انہیں کس طرح اپنے مظالم کا تختۂ مشق بنایا او راندھے کنویں میں پھینک دیا۔جسے تاریخ نے’چاہ یوسف ‘کا عنوان بخشا ہے۔

تلمیح کی لغوی تعریف اور معانی:

تَلمِیح۔(عربی)عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفصیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر ہے اردو میں سب سے پہلے اس کا استعمال1851 کو ’عجائب القصص‘ میں کیا گیا۔

اسم نکرہ (مؤنث – واحد)جمع: تَلمِیحات

جمع غیر ندائی: واومجہول کے ساتھ’ تلمیحوں ‘آتی ہے۔

اس کے متعدد معانی ہیں جن کی تفصیل ؎حسب ذیل ہے۔

1۔علم بیان کے باب میں کلام میں کسی مشہور مسئلے حدیث، آیت قرآنی یا قصے یا مثل کسی اصطلاح علمی و فنی وغیرہ کی اشارہ کرنا جس کو سمجھے بغیر مطلب واضح نہ ہو۔

’صنعت شعری میں  ’ تلمیح ‘کسی قصہ طلب واقعے سے مضمون پیدا کرنا کہلاتاہے۔

2۔ اشارہ، کنایہ۔

مثال:’تشبیہ ذات مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نور کی عجب تلمیح ہے۔‘

3.۔نفسیات ( شہوت انگیز، یا گندے خیالات پیدا کرنا، انگریزی: Suggestion۔۔۔۔۔

’انسانی تقلیدکی اکثر مثالیں حیوانات کی سادہ تقلید کے مقابلے   میں بلحاظ اصلیت زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں یہ مختلف قسم کی پیچیدہ ذہنی فعلیتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں ان فعلیتوں میں سب سے بڑی وہ ہے جس کواصطلاحاً’تلمیح ‘کہتے ہیں۔ ‘

اِشارَہ، رَمز

علم بیان

کسی شعر میں تاریخی، مذہبی یا تہذیبی واقعہ کی طرف مختصر اشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔

اردو میں اس کے لغوی معنی: اچٹتی نگاہ ڈالنا۔کلام میں کسی قصے کی طرف اشارہ کرنا۔

معیار اللغات میں اس کے معانی یہ بیان کیے گئے ہیں کہ وہ ایسی صنعت کا نام ہے جس میں کلام کسی قصہ مشہور یا مضمون مشہور پر مشتمل ہو۔

ہارمانک ہندی کوش ڈکشنری میں اس کے معانی اس طرح درج ہیں: کسی کہی ہوئی بات کی طرف مخفی انداز میں  اشارہ کر نا۔وہ بات کوئی واقعہ یا حوالہ ہو۔

خلاصہ:

تلمیح کے لغوی معنی رمز اور اشارہ کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں کسی تاریخی واقعہ، مذہبی حکم، لوک داستانی کردار وغیرہ کو اس انداز سے نظم کیا جائے کہ شعر کا مضمون پُرلطف اور زوردار ہو جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں دو ایک الفاظ کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ان کو پڑھتے ہی پورا واقعہ، قصہ، معاملہ یاحکم وغیرہ قاری کے ذہنی گوشوں میں متحرک ہو کر اس کی سوچ کو شعر میں موجود مضمون میں گم کر دیتا ہے۔ تلمیح کو حسن ِ شعر کا درجہ حاصل ہے۔ شعر میں تلمیح سے متعلقہ لفظ یا الفاظ کو جو نئے اور مخصوص مفاہیم ملتے ہیں اس سے ہی انھیں اصطلاح کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

تلمیح کی اصطلاحی تعریف:

اصطلاح میں ’تلمیح‘کی تعریف یہ ہے کہ شاعر و ادیب اپنے کلام و گفتگو میں کسی مسئلٔہ مشہور، کسی قصے، مثل شے اصطلاح نجوم، قرآنی واقعہ یا حدیث کے تناظر میں  کسی بات کی طرف اشارہ کرے، جس سے مکمل واقفیت کے بغیر معانی سمجھ میں ہی نہ آسکیں۔

نوٹ:

یہاں یہ بات بطور جملہ معترضہ یا وضاحتی نوٹ کے طور پر کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نثری ادب میں اس کی نظیریں خال خال ہی ملیں گی تاہم شعری ادب میں اس کی بہتات ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ہر استاذ شاعر نے ’تلمیحات ‘کے استعمال پر خصوصی توجہ دی اور ان واقعات کو زندۂ وجاوید بنادیا۔وہ میرؔ ہوں کہ غالبؔ، داغ ؔ ہوں کہ حسرت ؔو فراقؔ بلکہ اقبال کی شاعر ی کا تو ایک عظیم حصہ ہی اس کی نظیر بے نظیر ہے۔

تلمیح کی جامع تعریف:

ا ن سب تعریفوں کے بعد جامع تعریف یہ ہے کہ تلمیح وہ انداز کلام ہے جس میں کسی خیال کی ادا  ئیگی کے لیے لطیف انداز میں کسی واقعے، قصے، داستان، مثل، اصطلا ح یا آیات و احادیث سے کوئی مرکب تعبیر اخذ کی گئی ہو یا کوئی لفظ تراشاگیا ہو یا شعر(کلام)کا مجموعی مفہوم ہی اس نو عیت کا ہو کہ ذہن کسی واقعے، قصے، داستان، مثل، اصطلاح یا آیت و حدیث کی طرف منتقل ہوجائے۔تلمیح کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ کلام میں اشارہ لفظاً موجود ہو بلکہ معانی و مفہوم کے اعتبار سے بھی اگر اشارہ پایا جارہا ہے تو ایسے کلام کو بھی تلمیح میں شمار کیا جائے گا بلکہ یہ تواور زیادہ لطیف و بلیغ تلمیح ہوگی، کیوں کہ اس میں استعارے کی شان پیدا ہوجائے گی۔

تلمیح کا آغاز و ارتقا:

ادبیات عالم میں تلمیح کا آغاز بہت قدیم زمانے سے ہے۔چنانچہ قدیم ادب اور زبان کی کتاب قرآن کریم نے اس کا سب سے پہلے استعمال کیا اور رہتی دنیا تک کے لیے اس کی نظیر ثبت کردی۔ چنانچہ ایک تجزیے کے مطابق قرآن کریم میں جتنی تمثیلیں، گزشتہ قوموں کے واقعات اور قصے ہیں ایک کثیر تعداد میں وہ سب تلمیحات ہیں او راحکام وشعائر کی آیات سے زیادہ کہیں ان کا استعمال ہوا ہے۔ یہ فصاحت و بلاغت کی ایکاعلی و اہم ضرورت کی تکمیل ہے۔اسی کی اہمیت و اعجاز ہے کہ قرآن کریم کے بعد ساری دنیا کے ادب میں اس کا استعمال کیا جانے لگا اور قلم کاروں نے مختصرانداز میں مافی الضمیر کی ادائے گی کے لیے اس کو اختیار کیا۔

ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی اس سلسلے میں  رقم طراز ہیں:

’تلمیح علم بیان کی نہایت اہم صنعت ہے۔ اس کی قدامت اس طرح مسلم الثبوت ہے جیساکہ تمدن و معاشرت کی تاریخ۔ابتدائے آفرینش سے اس صنعت کا گہرا لگائو انسانی تمدن سے رہا ہے۔ ارتقاکی ہر منزل میں اس کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی جن قوموں میں الفاظ نہیں تھے وہ اپنے خیالات و جذبات کو سمجھانے کے لیے ہاتھ پائوں سے اشارہ کر تی تھیں اور جب انھیں زبان ملی تو انھوں نے اپنی حرکات و سکنات کو تلمیح کا نام دیا۔اس لیے کہ تلمیحات نے وہی کام کیا جو ان کے اشارے کرتے تھے۔‘

تلمیحات کی ضرورت:

تلمیح کی ضرورت کلام میں فصاحت و بلاغت اور حسن پیدا کر نے کے لیے ہوتی ہے۔اس سے مختصر انداز اور الفاظ میں بڑی بڑی باتیں بتادی جاتی ہیں اور ان حقائق کو سمو دیا جاتا ہے جنھیں بتانے اور سمجھانے کے لیے کئی کئی صفحات کی ضرورت پڑتی ہے۔نیز اس طرح سے شاعر اور فن کا ر کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم نے جا بجا تلمیحات کا استعمال کیا ہے اور اہل زبان کو ان واقعات کی جانب اشارہ کیا ہے جو ان سے پہلے ماسبق میں گزر چکے تھے۔نیز تلمیحات ہمیں  بیجا لمبی لمبی تشریحوں سے بچاکر کفایت وقت، ایجاز اور تاثیر کا فیض پہنچاتی ہیں۔ عربی، فارسی اور برصغیر کی زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عام ہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ یہی بات ہے کہ اردوغزل نے تلمیح کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ اردوکے چھوٹے بڑے تمام شعرا کے ہاں اس کے استعمال کا رواج ملتاہے۔

ہماری شعری تلمیحات اکثر و بیشتر قرآن کریم سے مستعار لی گئیں ہیں بلکہ اس طرح سے تفسیر قرآن عظیم کے نئے در وا ہوئے ہیں۔اس طر ح کہ جب سامعین کوملائکہ، فسانۂ آدم، کشتیٔ نوح، کوہ طور کی تجلی، آگ، ابراہیم، اولاد، یوسف، اسماعیل، قربانی، زنان مصر، فرعون، سحر سامری، عصا ئے موسیٰ، خضر، آب حیات، مرغ سلیماں، بلقیس صبا، ابن مریم، مکہ مکرمہ، اصحاب فیل، ابو جہل، ابو لہب کے علاوہ دیگر عربی اقوام اور باشندوں کی زندگی کے متعلق سنیں گے تو ان کے من میں ان اشاراتی واقعات کی مکمل حقیقت جاننے کی طلب اور تڑپ ضرور پیدا ہوگی۔ چنانچہ وہ ضرور اس جانب متوجہ ہوں گے اور قرآن انھیں یا اس کے مذکورہ واقعات سمجھنے میں انھیں دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔ دوسری بات یہ کہ مطول تفسیر کے بجائے مختصر تفسیر ان اشاروں میں بسی ہوئی ہوتی ہے۔

تلمیحات کی اہمیت:

تلمیحات ادب کی جان ہیں خواہ نثر میں ہوں یا نظم میں ، ان معنیٰ خیز اشاروں سے ادیب و شاعر اپنے کلام میں بلاغت کی روح پھونکتے ہیں۔ افادات سلیم میں لکھا ہے:

’تلمیحات بلاغت کا نشان ہیں۔ بلاغت کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دی جائے نیز کم سے کم الفاظ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ معانی سمجھے جائیں اور یہ بات تلمیحات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔چنانچہ جس زبان میں تلمیحات کم ہیں یا بالکل نہیں ہیں، وہ بلاغت کے درجے سے گری ہوئی ہے۔‘

تلمیحات کے ذریعے شاعر کلام میں تاثیر پیدا کر تا ہے نیز اشعار کو شاندار، جان دار اور با وقار بناتا ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایک تلمیحی شعر غیر تلمیحی شعر کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ اور خوش نما ہوتا ہے۔ اسی طرح نثری کلام میں بھی اس کی کارفرمائی ہے۔تلمیحات کا کمال یہ بھی کہ وہ باذوق افراد و اشخاص کو چند ساعتوں میں پورے پس منظر سے آگاہ کر دیتی ہیں۔ چنانچہ اگر کسی قرآنی واقعے کا ذکر کسی شعر میں ہوا تو نہ صرف قرآن کی جانب سامع کا ذہن جائے گا بلکہ قرآن میں موجود اس قصے کا مذاکرہ بھی اس کے ذہن میں آجائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ تلمیح خود ایک شعری صنعت ہے۔یعنی اس کے بغیر اچھے اشعار کا وردو ممکن ہی نہیں۔ ورنہ تُک بندی کو کون شعر کہے گا۔صنعت تلمیح جہاں بذات خود ایک حسین صنعت ہے وہیں شعر میں  یہ دوسری شعری صنعتوں کا حسن و جمال کی افزودگی کی بھی ضامن ہے۔اسی لیے بلا تامل یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نثرو نظم اور دیگر اصناف سخن پر تلمیح جس قدر حاوی ہے کوئی اور صنعت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسی بات سے اردو شعرو ادب میں تلمیح کی اہمیت و حیثیت کا تعین اور اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔

اردو شاعری میں تلمیحات اور ان کا حکائی پس منظر:

ا ب ذیل میں اردو ادب میں موجود تلمیحات اور ان کے پس مناظر میں موجود واقعات/حکایتوں کی تفصیل ملاحظہ فرمایے:

حیدر علی آتش کا شعر ہے:

عاشق اس غیرت بلقیس، کا ہوں میں آتش

بام تک جس کے کبھی، مرغ سلیماں نہ گیا

اس شعر میں اشارہ ہے قصۂ بلقیس و سلیماں کی جانب۔جس کی ترجمانی قرآن کریم کی سورۃ نمل میں بالتفصیل کی گئی ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اس شعر میں آتش نمرو کی د تلمیح ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

واقہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام نے اپنے شہر کے سب سے بڑے بت کدے میں پتھر کی مورتوں کو توڑدیا پھوڑدیاتو اس سے پوری قوم میں غم و غصہ کا عالم بپا ہو گیا۔ سب لوگ حضرت کو برابھلا کہنے لگے۔ جب اس سے بھی کام نہ چلا تو آپ کو جلا ڈالنے کا فرمان جاری ہوا۔چنانچہ اس واقعے کاخلاصہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیاہے:

حرقوہٗ وانصرو اٰلھتکم ان کنتم فاعلینOسورۃ انبیا۔24

’اس کو جلا ڈالو اور اپنے اپنے خدائوں کو بچائو ؟اگر تم سے کچھ ہو سکتا ہے تو۔‘

اس کے بعد متعدد تفاسیر و روایات میں موجود ہے کہ شاہی فرمان کے مطابق شہر سے سب سے بڑے چوک پر آسمانوں کو چھونے والی آگ جلائی گئی جس میں ’عشق ‘یعنی ’خلیل خدا‘بے خطر کود پڑا۔

آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

نامعلوم

اس شعر میں چاہ یوسف کی تلمیح کا استعمال ہے نیز اس میں حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ان بھائیوں کی طرف جنھوں نے معصوم یوسف کو کنوئیں میں ڈال دیا تھا اور رات روتے ہوئے گھر پہنچے۔بہانہ بنایا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔

ماہ مصر، شاہ مصربلکہ ماہتاب مصر حضرت یوسف علیہ الصلاۃوالسلام کے واقعے سے کون ناواقف ہے۔ا ن کی معصومیت کے دنوں میں ہی بھائیوں نے انہیں کس طرح اپنے مظالم کا تختۂ مشق بنایا او راندھیرے کنویں میں پھینک دیا۔جسے تاریخ نے’چاہ یوسف ‘کا عنوان بخشا ہے۔

Oغالبؔ کا انداز بیاں ہے:

سب رقیبوں سے ہے ناخوش پر زنان مصرسے

ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہو گئیں

اس واقعے کو قرآن کریم نے سورۃ یوسف میں اس طرح بیان کیا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔فلما رأئینہ اکبر نہ وقطعن ایدھنَّ وقلنَ حٰش للّٰہِ ما ھذا بشراً اِن ھذا الا ملکٌ کریمٌOقالت فذالکن الذی لُمتُننی فیہ۔۔۔۔۔۔۔۔سورۃ یوسف۔31۔32

’جب انھوں (زنان مصر) نے اسے دیکھا۔ایک عجوبہ تھا۔وہ اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں۔ ۔۔۔۔حاشا للہ۔۔۔۔۔۔یہ مرد نہیں یہ فرشتوں کی انجمن کا کوئی شہکار ہے۔زلیخا بولی:’یہی ہے وہ شخص، جس کے متعلق تم مجھے طعنے دیا کر تی تھیں۔ ۔۔۔۔۔‘

Oغالب کا ایک اور شعر ہے:

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طور سینا پر صدائے حق سنی۔ ایک بار نہیں۔ ۔۔۔دو بار نہیں بلکہ متعدد بار۔ ۔۔۔پھر صدا دینے والے کے دیدار کا اشتیاق ہوا۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں:

ولماجآء موسیٰ لمیقٰتناو کلمہ ربُّہٗ قال ربی أَرنی انظرالیکج قال لن ترٰنی ولکن انظر الی الجبلِ فاِن ِاستقرمکانہ فسوف ترانیج فلماتجلیٰ ربہ للجبل جعلہٗ دکّاو خر موسیٰ صعقا۔۔۔۔۔Oسورۃ اعراف 143

’جب حضرت موسی علیہ الصلوٰۃ والسلام وعدہ پورا کر کے اور اپنے رب کا کلمہ لے کر آئے۔انھوں نے پہا ڑ پر اپنے رب سے کہا: ’اے میرے رب مجھے اپنے تئیں دکھائیے۔‘فرمایا: ’تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔البتہ پہاڑ کو دیکھیے اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو پھرمیری دید کا امکان ہے۔ ‘پھر جب پہاڑ پر موسیٰ کے رب نے تجلی ڈالی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور موسیٰ بے ہوش ہو گئے۔‘

مرزاغالبؔ نے مذکورہ بالاشعر میں اسی واقعے کی جانب اشارہ کر تے ہوئے حوصلہ اافزا تلقین کی ہے۔ یہ وقت وقت کی بات ہے کہ کوہ طور پر دیدار خدا نہ ہو اور یہ بھی فرض نہیں کہ سب کو ایک سا ہی جوا ب ملے۔ کیوں نہ ہم بھی قسمت آزمائی کریں اور دیدار خداوندی کا شرف حاصل کر یں۔

Oہندی کے معروف شاعر مدن پال کا خیال ہے:

پتھر تراش کر نہ بنا تاج اک نیا

فن کار کی جہان میں کٹتی ہیں انگلیاں

اس شعر میں اس تاریخی واقعے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جب 1653میں  تاج محل بن کر تیار ہو گیاتوبادشاہ نے تمام مزدوروں کے ہاتھ کٹوادیے تاکہ یہ لوگ کسی اور کے لیے تاج نہ بنا دیں او راس کے تاج کی چمک دمک پھیکی نہ پڑ جائے۔۔۔۔۔۔۔

پتھر ابالتی رہی اک ماں تمام رات

بچے فریب کھا کے چٹائی پے سو گئے

نامعلوم

اسی قبیل کا ڈاکٹر نواز دیوبندی کا شعر ہے:

بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے

ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک

یہ شعر بھی اسی واقعے کی تلمیح پر مبنی و مشتمل ہے اور اس کا حکائی پس منظر بھی وہی ہے۔

ان اشعار میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کے ایک واقعے کی جانب لطیف سااشارہ کیا گیا ہے۔ مورخین لکھتے ہیں جوار مدینہ میں ایک قافلہ کہیں سے آیا اور وہیں ٹھیر گیا۔اسی قافلے کی ایک عورت رات میں اپنے بھوکے بچوں کو تسلّی دینے کے لیے چولہے پر پانی بھرے برتن کو گرم کرتی رہی اور بچے یہ سمجھتے رہے کہ ان کی ماں ان کے لیے کچھ بنا رہی ہے۔مگر پھر وہ سو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گشت کے دوران میں یہ صورت حال دیکھی تو تڑپ گئے اور فوراً اپنے غلام کو لے کر بیت المال آئے اور وہاں سے چند بورے اپنی اور غلام کی پیٹھ پر لاد کر اس مقام پر آئے اور سامان اس ماں کے حوالے کیا جو بچو ں کو فریب دے کر سلا رہی تھی۔

Oافتخار عارف کا شعر ہے:

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانہ ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ پرانہ ہے

کربلا کا تمام منظر اس شعر میں آگیا۔نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہر فرات سے پانی لے کر آتے ہیں کہ دشمنوں کا تیرے اسے پھاڑ کر تمام پانی باہر نکال دیتے ہیں۔ اسی پیاس، اسی گھرانے اور اسی دشت کا قصہ ہے اور مشکیز ے سے تیر کے پرانے رشتے کا حال اس میں بیان کیا گیا۔

Oناصر کاظمی کا شعر ہے:

یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے

جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے

قرآن اس تلمیح کا حکائی پس منظر اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کر تا ہے:

قِیلَ لہا اُدخُلی الصَّرْح َ فلما رأتہٗ حَسِبَتْہٗ لُجَّۃً وَ کَشَفَتْ عن سَاقیھاج قال انہ صرحٌ مُّمرِّدٌ مِّن قَواریرَ۔ ۔۔۔۔O النمل:44

اس(بلقیس)سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہوجائو۔جب اس نے(راستے میں  )دیکھاتو اس نے اسے پانی سمجھااور اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔ اس سے کہا گیا یہ پانی نہیں باریک شیشہ ہے( جو حوض پر بچھایا گیا ہے۔)

محل سلیماں میں بلقیس کی آمد اس طرح ہوئی کہ اس کی حسین پنڈلیاں کھل گئیں۔ دیکھنے والوں نے ایک عجیب سا منظر دیکھا۔اب شاعر یہی آرزو کرتا ہے کہ میری غزل میں ترے حسن کی تصویر ایسے ہی آئے۔

Oاردو نثر میں تلمیحات اور ان کا حکائی پس منظر:

شعر ی ادب کے علاوہ نثر میں بھی اردو قلم کاروں نے تلمیحات کا استعمال کیا ہے جن میں انتظار حسین کا نام سر فہرست ہے۔انھوں نے خدا کی بستی اور آخری آدمی جیسی کہانیو ں میں  قوم بنی اسرائیل کے واقعات کو جابجا ان کا استعمال کیا ہے۔

Oموجودہ عہد میں ابن کنول کے افسانوں میں وہ جھلک نظر آتی ہے چنانچہ ان کے افسانے ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘ میں انھوں نے اصحاب کہف کے واقعے سے اس کا پلاٹ اور اسلوب تیار کیا ہے۔ اصحاب کہف اپنے وقت کے بادشاہ اور قوم کے ظلم سے بچنے اور اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر غار میں چلے گئے، وہاں ان پر نیند طاری ہو گئی۔ جب وہ بیدار ہوئے تو انھیں ایسا لگا جیسے ایک شب ہی بیتی ہو مگر وہ صدیوں کا فاصلہ تھا۔ قرآن کریم نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے:

قال قائل منھم کم لبثتم قالوا لبثنا یوماً اور بعض یوم ج۔۔۔۔الکہف:19

’ان میں سے کسی نے کہا کہ ہم ایک دن یا چند ایام سوئے ہیں۔ ‘

O’سویٹ ہوم‘ابن کنول کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں شہر مکہ کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔وہی شہر مکہ جو ماضی میں  دیار بے آب و گیا ہ کے نام سے معروف تھا۔وہاں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے لخت جگر کووہاں چھوڑ کر آئے اور پھر ایک مدت بعد وہا ں شہر آباد ہوگیا جسے عالمی مرکز ہونے کا شرف حاصل ہوا۔وہ اتنا خوب صورت اور جاذب عالم شہر بنا کہ اب اسے ساری دنیا کا’سویٹ ہوم‘کہا جاتا ہے۔وہاں اطراف واکناف عالم سے قافلے کے قافلے کھنچے چلے آتے ہیں اور جنت کا سا سکون حاصل کر تے ہیں۔ قرآن کریم نے شہر مکہ کی تعمیر، تشکیل، وہاں خانہ خدا کی بنیاد کا منصوبہ اور عمارت کا قیام نہایت تفصیل سے درج ہے۔اسی افسانے میں ابن کنول نے ’ابابیل‘کی تلمیح کا استعمال کیا ہے۔

O’ابابیل‘ایک ایسا استعارہ ہے جسے تاریخ مکہ کا ایک اہم موڑمانا جاتا ہے۔اس کا حکائی پس منظر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں واقع خانہ خدا کی مقبولیت جب چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور بندگان خدااس کی زیارت کو جوق درجوق آنے لگے تو والیٔ یمن ابرہہ کو یہ بات بہت ناگوار گزری اور اس نے اپنے ملک میں شبیہ خانہ کعبہ بنا کر عوام کو اس کی جانب رخ کر نے اور اس کے طواف کے احکام صادر کر دیے۔ مگراس کا یہ حکم نامہ ہوا میں اڑ کر رہ گیا، مزید یہ کہ اسکے  کعبہ کو لوگوں نے برباد کر دیا۔ ان واقعات نے اس کا غصہ آسمانوں سے بھی اونچا کر دیا اوراس نے خانۂ کعبہ کے انہدام کا فیصلہ کر لیا۔وہ مکہ آبھی گیا اور بیرون مکہ پڑائو ڈال کر ناپاک منصوبے بنانے لگا۔والیان و محافظین کعبہ اسے اس کے مالک کے حوالے کر کے جنگلوں او رپہاڑوں میں چلے گئے۔پھر کرشمۂ قدرت سب  نےدیکھا۔ ۔۔۔۔۔ایک طرف سے ابابیلوں کا لشکر آیا جو غنیم پر حملہ آور ہو گیا۔ان کے پنجوں اور چونچوں کی کنکریاں دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اتارتی چلی گئیں۔ ۔۔۔ساری فوج تتر بتر ہو کر پسپا ہو گئی۔قرآن کریم نے ’سورۃ فیل‘ میں اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے دشمنوں کی تباہی کو ’کھائے ہوئے بھوسے کی مانند ہونا‘جیسی تمثیل بخشی ہے۔

OOO

معاون کتب و رسائل:

(1)قرآن کریم

(2)شعرالعجم۔مولانا شبلی نعمانی۔دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی۔اعظم گڑھ۔جنوری1991

(3)عجائب القصص (اردو ترجمہ)ڈاکٹر دائود ترمذی۔ مجلس ترقی ادب۔لاہور۔1965

(4)اساس نفسیات، (اردو ترجمہ)معتضد ولی الرحمان۔مکتبہ جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد۔1932

(5)فیروز اللغات جامع۔(جدید ایڈیشن)مولوی فیروز الدین۔فیروز سنز۔لاہور۔راولپنڈی۔کراچی۔2000

(6)ارد و شاعری میں اسلامی تلمیحات:عطاء الرحمان صدیقی ندوی۔عالمی رابطۂ ادب اسلامی، لکھنؤ۔2004

(7)اردو ادب میں تلمیحات۔ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی۔ کتب خانہ علم و دانش۔حیدرآباد۔2003

(8)افادات سلیم۔پرو فیسر وحیدالدین سلیم۔مرکنٹائل پریس۔لاہور۔1960

(9)اردو رموز۔مولوی رفاقت علی۔مکتبہ تعلیم۔ کان پور۔1978

(10)قصص القرآن۔مولانا حفظ الرحما ن سیوہاروی۔مکتبہ برہان، اردو بازار۔ دہلی

(11)سہ ماہی صفا۔(ادب اسلامی نمبر)ایڈیٹرمولانا محمد رضوان القاسمی۔دارالعلوم سبیل السلام، حیدرآباد۔1996

٭٭٭٭٭

ماخوذ از : اردو ریسرچ جنرل
کاپی شدہ شدہ غلام مصطفیٰ دائم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔