Thursday, November 30, 2017

نظم "چلے بھی آؤو"، نظم نگار "حسن اظہر"۔تبصرہ۔طارق احمد طارق۔

نظم "چلے بھی آؤو"
شاعر۔حسن اظہر
تبصرہ نگار۔طارق احمد طارق

السلام علیکم۔
زیرِ تبصرہ نظم پر کل سے جو آرا سامنے آئیں ہیں وہ تشفّی نہیں کرسکی ہیں ۔شعراء اور نقاد کو شعری محاسن یا معائب ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی مگر انہوں نے سطحی طور چند باتیں لکھ کر اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے میں ہی عافیت محسوس کی۔
جب ہم تنقیدی ضابطوں کے ساتھ بات کرنے کی ہمّت کرتے ہیں یم زبان، اسلوب، آہنگ، عروض، صنایع وبدایع کے علوم سے استفادہ کرتے ہوئے فن پارے کی ماہیئت واضع کرتے ہیں۔
یہ نظم "نظم معریٰ" کے ذیل میں آتی ہے، یہاں ردیف قافیہ کی حد بندیوں سے گریز کیا گیاہے۔بحر کا سکہ بند انتظام ہے۔
موضوع "چلے بھی آؤؤ" کی ترویج کی گئی ہے۔نظم چونکہ بجائے اجمال کے تفسیر پر ٹکتی ہے لہذا جزئیات کا بھی نظم میں اہتمام کیا گیاہے۔
اس نظم کا مزکزی خیال "فراقِ یار"ہے۔شاعر نے غمناک فضاء کی بساط بچھا کر نظم شروع کی ہے۔نظم کا خلاصہ کچھ اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے۔
شعری کردار کے لیے محبوب کی جدائی قیامت خیز ثابت ہورہی ہے۔وہ محبوب کی ملاقات کےلیے بِلکتاہے، تڑپتاہے، سِسکتاہے۔وہ فریاد کُناں ہے کہ وہ بےبسی کی مار جھیل رہا ہے۔محبوب سے زار وقطار کہتا ہے "چلے بھی آؤو"، کیونکہ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔اُس کے سینے سے نکلنے والی آہیں آگ پر رکھی ہوئی ہانڈی کی مانند اٌبل رہی ہے۔گوکہ محبوب کے ساتھ گزاری ہوئی حسین یادوں کا موسم ابھی بھی اس کی آنکھوں میں آباد ہے۔محبوب کی جدائی نے اُس کے سوچوں کے آشیاں کو جھُلسادیاہے۔اور شعری کردار جنون میں موجِ ہوا کی طرح دربدر بھٹکتا نظر آرہا ہے۔نظم میں محرومی کا شدید احساس پایا جاتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کو عملی زندگی میں اس صورت حال کا سامنا ہے، جبھی تو دل کا کرب نوکِ قلم سے بے ساختہ طور درد بھری داستان رقم کرتا دکھائی دے رہا ہے۔شاعر ماضی کے دُھند لکوں میں کھو جاتا ہے تو اسے عہدِ گذشتہ میں وصالِ یار کی رعنائیاں دید مان ہو جاتی ہیں۔محبوب کا گل اندام جسم، نورانی چہرہ، اُس کی ہنسی کی جھلک، مسکرانے کی ادا، زلفوں کا بکھیرنا، اور ڈل میں گذاری ہوئی اُس کے ساتھ شام،  شاعر کو جزباتی سطح پر بے قابو کرتا ہے، اور اُسے لوٹ آنے کی آہ وزاری کے لیے اُکساتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌
لسانی تجزیہ۔
پیکر تراشی کی طرف دیکھیں تو 'اُبلتی آہیں'، خوبصورت پیکر کے طور اُبھراہے۔اس میں درد وکرب کی منتہاہی کیفیت سمو چکی ہے۔
"حسین یادوں کے موسم کا پکارنا"، صناعِ لفظی ہے۔تجسیم کاری کا استعمال کرکے موسم کو انسانی خصائص عطا کیے گیے ہیں۔
سوچوں کا آشیانہ جھُلس جانا بمعنی عاشق کی منطقی حِس محرومی کی وجہ سے نا کارہ سی ہوجانا بڑی معنی خیز بات معلوم ہوتی ہے۔
گئے دنوں کا سُراغ عہدِ گذشتہ کا لطف وکرم کئ طرف اشارہ کرتا ہے۔
مثل موج ہوا ہوکر بھٹکنا، گو کہ معنوی تکرار ہے مگر شعر کے حسن کو دوبالا کرتی ہے۔
ہوا ہوا ہوں میں بھئ ایک شعری صنعت ہاتھ آئی ہے۔
نظم میں ڈرامائیت کی کیفیت بھی شاعر نے شعوری طور پیدا کی ہے۔پہلے شعری کردار نے موجِ ہوا کا استعارہ اوڈھ لیا ہے، اور پھر ہوا کو تجسیم کاری کے نظام سے گذارا ہے اور اُسے پلکیں عطا کرکے انھیں محبوب کی راہوں میں بچھایا ہے۔
آگے شاعر نے امیجری سے کام لیا ہے، یادوں کے حوالے سےحسی پیکر اختراع کیے ہیں۔
یادوں کے پیکرہی جھِلملائے، یہاں یادوں کے پیکر بمثلِ ٹمٹماتے چراغ تصّور میں آتے ہیں۔آگے کے شعر میں جہاں محبوب کے چہرے سے نور چُرانے کے واسطے ڈل کی لہروں کا اُچھلنا صنعت مبالغہ عقلی پیش ہوا ہے۔یہاں ڈل کی موجوں کے اُچھال کی وجہ محبوب کا نورانی چہرہ دیکھنے کی حسرت بیان کیا گیا ہے جو سراسر "حُسن تعلیل" ہے۔اس کے بعد شاعر نے محبوب کی سراپا نگاری سے کام لیا ہے اور یہ وجہ فراہم کی ہے کہ شاعر ایسے محبوب کی یاد میں، اور اس کے وصال کی خاطر کیوں کر حواس باختہ نہ ہو۔
نظم اچھی ہے، اور محنت ہوتی اور بھی نِکھر کر آتی۔موضوع کے اعتباد سے کوئی نیا پن نہیں ہے البتہ ٹریٹمنٹ بہت سُلجھا ہوا ہے۔
شاعر کو میری طرف سے ڈھیروں داد۔
"خدا کرے زورِ قلم اور ذیادہ"
تبصرہ نگار
طارق احمد طارق
رفیع آباد ادبی مرکز

No comments:

Post a Comment