افسانہ "کال بیل"
افسانہ نگار۔غلام محمد ماہر
تجزیہ نگار۔طارق احمد طارق
السّلام علیکم۔
مختصرافسانہ "کال بل" پڑھتے ہوئے بڑا مزا آیا۔قاری کا تجسس بڑھانے میں افسانہ نگار نے جزبات کی رو کو اچھی خاصی رفتار عطا کی ہے۔
ابتدائیہ بہت اچھا ہے۔خیال آہستہ آہستہ کُھلتاہے۔کہانی بالکل سپاٹ نہیں بلکہ قاری کو ہر نئے جملے کے بطن سے نئے خیال کی ترویج ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
افسانہ نگار انتشاری کیفیت کو بھی اچھی طرح وضع کرنے میں کامیاب ہوا یے۔ پہلے آدمی بمقابلہ ما فی الضمیر کا تضاد، اور بعد میں آدمی بمقابل آدمی کا تضاد افسانے کے پلاٹ کو نقطہ عروج تک لے جا تا ہے،۔نیکی ہارتی ہوئی دیکھ کر قاری کو صدمہ ہونے لگتاہے، وہیں بدی کو تبائی کی نوید سنائی جاتی ہے اور قاری کو راحت کا سامان میسر آتا ہے، اور افسانہ نگار کا منشا بھی پورا ہوتا ہے۔افسانہ نگار کو پلاٹ کی چُستی، اور وحدت تاثر کی کامیاب مرقع نگاری کے لیے مبارک باد۔
زبان اور محاورہ کے حوالے سے کچھ اشکال قاری کے ذہن میں ضرور پیدا ہوسکتے ہیں۔تھوڑا ان کی وضاحت کرتے آگے بڑھتے ہیں۔
پہلا نقطہ۔
تختی پر جلے حروف سے لکھا ہے "شیخ سلمان، کنٹریکٹر"۔نوجوان کی بات کی جواب میں یہ کہنا کہ مکینوں سے ملنا ہے خلاف محاورہ لگتاہے۔یہاں اگر یہ ہوتا "سیٹ جی سے ملنا ہے" تو ذیادہ حقیقت پسند بنتا۔
کنٹریکٹر وجیہہ صورت نوجوان تھا۔ایسا نوجوان محبت والے سین کےلیے فٹ رہتا،. نہ کہ منفی رول میں۔
"اُس نے وہی رٹے رٹائے الفاظ دھرائے۔کہ ماں کی دوائی پر بہت۔۔۔۔۔"۔الفاظ کی یہ دروبست بتاتی ہے کہ لڑکی پیشہ ور بکھارن تھی۔
"اتنی خوبصورت ہو، کوئی کام کیوں نہیں کرتی"۔ جب لڑکی کہتی ہے کہ بروع پہن کر بڑے لوگوں کے کال بیل بجاتی ہوں، تو پھر نوجوان کو کہاں سے پتہ چلا لڑکی خوبصورت ہے۔
دوئم۔اتنی خوبصورت ہو کا مطلب کیا نکلتا ہے کہ چکلے پر کیوں نہیں بیٹھتی۔
سیوم۔
اتنے جوان ہو کوئی کام کیوں مہیں کرتے، عوام کے زبان زد یہ محاورہ ہے، عورت کو بھیک مانگنے پر یہ نصیحت دینے کا رواج نہیں ہے۔
"اندر آنے کی ہمت نہیں ہے" اور ساتھ میں "بابو جی بھروسے والے ہی دل دُکھاتے ہیں"۔۔۔ یہ دونوں ج۔لے کافی ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ لڑکی کے ساتھ پہلے بھی دست درازی ہوئی ہے۔پھر بھی اگر وہ اندر آتی ہے تو اسے پتہ ہے کہ ہوسکتاہے، اور وہ ہوچکنے کے بعد نہ وہ بے ہوش ہو سکتی ہے اور نہ وہ پیسہ وہیں پھینک آ نے کا فیصلہ کرتی۔
چہارم۔
جب لڑکی برقعہ پوش ہے تو سلمان کو کس طرح کھلے چہرے پر نظر پڑی۔ہاں اگر نقاب اٹھایا ہوگا، تو بکنے پر آمادہ ہوچکی ہوگی، اس صورت میں ردعمل وہ نہیں ہوسکتا جو افسانہ نگار نے دکھایا ہے۔
الماری سے نوٹ نکال کر لڑکی لیتی ہے، اور شکریہ ادا کرتی ہے۔اگر سلمان پیسہ پھینکتا تو شکریہ کس لفظ استعمال نہ ہوا ہوتا۔پیسہ لینے کے لیے لڑکی کو جھکنا کیوں پڑا، یہاں افسانہ نگار کی مجبوری ابھر آتی ہے۔
اختتام چنداں ٹھیک ہے، بلکہ بہت اچھا ہے، ایک جملے میں تصویر کا رخ واضع کرنے کےلیے اس سے بڑھ کر اختتامیہ سوچا نہیں جاسکتا۔
موزضوع ضرور روایتی ہے مگر ٹریٹمنٹ اچھا ہے۔افسانہ نگار کو نیک خواہشات اور داد ہی داد۔
خدا کرے زور قلم اور ذیادہ۔
طارق احمد طارق
رفیع آباد ادبی مرکز۔💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐