Wednesday, April 5, 2017

غزل"سمندر کے سینے میں سب کچھ تو ہے" از قلم حکیم منظور

Download this article in PDF format. Click here

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------

آج کی غزل کے حوالے سے جو حکم مجھے ہوا ہے کہ میں اس پورے تنقیدی مباحثے کا احاطہ کروں اور ساتھ میں اپنی آرا بھی پیش کروں، اس حکم کی تعمیل میں پہلے یہ معذوری ظاہر کروں کہ اساتذہ کی آرا پر رائے زنی کرنا میرے لیے ایک کڑوا پیالہ ہے جسے میں محض رفیع آباد ادبی مرکز کے سرپرست"ڈاکٹر رفیق مسعودی" کی ایماء پر نہایت ہی احتیاط کے ساتھ بہ سر خم انجام دینے کی کوشش کروں گا ۔
زیر موضوع غزل پر اچھا مباحثہ ہوا۔تقریباً تمام مقتدر شعراء نے مباحثے میں حصہ لیا۔جن میں ڈاکٹر رفیق مسعودی صاحب، شبیر احمد شبیر، ڈاکٹر شوکت شفا، حسن اظہر، نثار گلزار، شبنم گلزار، نگہت صاحبہ، فوزیہ مغل، حلیم سوپوری کے نام حاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
شرکائے محفل کے تنقیدی پیرائیوں کا میں صرف ماحصل اگر پیش کروں تو کچھ ایسی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔
ڈاکٹر شوکت شفا۔
"مجھ بندشِ کلام نے بڑا متاثر کیا۔کلام اچھا ہے مگر۔۔۔۔زبردست نہیں کہ سکتا۔"
حسن اظہر۔
"تخلیقی سطح پر شاعر بہت کامیاب ہے۔پہلے دو اشعار میں الفاظ اور معنیات ایک دوسرے سے دور بھاگتے نظر آتے ہیں۔باقی اشعار اچھے ہیں مگر ان میں شعریت نہیں ہے۔"
نثار گلزار۔
"سمندر کو بے رحم ثابت کرنے کی بےجوڈ تصویر کھینچی گئی ہے۔آگ اور خون کی ہولی دکھائی گئی ہے۔کلام جدت سے عاری ہے۔بالکل بوسیدہ۔"
شبیر احمد شبیر۔
"مطلع میں الفاظ کی تکرار بیجا ہے۔بلاغت کے منافی۔تیسرے شعر میں وزنی سُقم ہے اور معنوی ربط غائب ہے"
نگہت صاحبہ۔
"کوئی تو ہو جو مجھے 'کھلاچاند' والا شعر تشریح کرکے دے ۔پلیز۔"
حلیم سوپوری۔
"بہت اچھا کلام ہے۔"
ڈاکٹر رفیق مسعودی۔
"آخری شعر میں غضب کی ڈرامائیت موجود ہے۔"
بحث اس طرح یہاں آکر ٹھہر گئی۔
اساتذہ کے تنقیدی نقاط اس بات کا اشاریہ ہے کہ کیا یہ کلام قارئین کے معیار کا تھا کہ نہیں۔ کیا شاعر کو مذید مشقّت درکار ہے کہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے کچھ عرضداشت۔
"طارق احمد طارق"
غزل کا پہلا شعر۔
سمندر کے سینے میں ہے سب مگر
سمندر کے سینے میں بس دل نہیں
سمندر یہاں، میرے حساب سے اپنے عمومی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
"سب" مبالغہ کے طور۔
سمندر سے انسان اپنی بےشمار ضروریات کو پورا کرتاہے۔
"دل نہ ہونا" بمعنی بے رحم ہونا۔
شعر ایک عمومی تجربہ پیش کرتا ہے۔
اگر شاعر نے سمندر کو استعارہ بنایا ہوتا تو بہت سارے مفاہیم کو ادا کرسکتا تھا۔
"سمندر بطور استعارہ"
وہ چیز جہاں صبرواستقلال،بردباری،ایثار جیسے جزبات خموشی سے سرگوشیاں کرتے ہوں۔
سمندر کے پاس بس دل نہیں۔ یہ کہہ کر سمندر کے جملہ خصائص کی نفی کی گئی ہے۔
دوسراشعر۔
"ملا جس میں آتش کو اک قطرہ خون"
یہ مصرع دلالت کرتا ہے کہ آتش کو بہت خون ملنے کی امید تھی۔ یہ کس معنی میں شاعر نے لیا ہے اس کی کھوج کےلیے 'کلیم الدین احمد' سے شاید رجوع کرنا پڑے گا۔
"دریا بے ساحل " نہیں ہوتا۔ہاں اگر مصرع اولی میں طوفان یا سیلاب کا ذکر ہوتا تو یہ مبالغہ جائز تھا۔
سمندر انسانی آنکھ کو بے ساحل دِکھتاہے۔ایسے جزبات کی ترسیل کےلیے سمندر ہی مناسب تھا۔
تیسرے شعر میں عمومیت کا رنگ ہے مگر بات سامنے آئی ہے۔محبوب کو چاند اور گل کے ساتھ موازنہ کراکے یہ جتلانا تھا کہ وہ ان سے ذیادہ خوبرو ہے، بات پوری ہوتی ہے۔
"کھلا چاند" کا پیکر زبردستی والا معاملہ دکھائی دے پڑتاہے۔
چوتھا شعر۔
"بدلتے ہیں رُخ" میں کافی ابہام ہے۔
یہ رخ کون بدلتا ہے۔۔۔
شعری کردار 
   یا  
  محبوب
   یا
  راستہ۔
دوسرا مصرعہ بہت کمزور ہے۔شاید شاعر کے پاس قافیہ کی بڑی تنگ دامنی رہی ہے۔
"راستے میں دل ہونا" کون سا محاورہ ہے جو اسے غزل کے ماتھے پر سجانے کی کوشش ہوئی ہے۔"
پانچواں شعر۔
"کھلے تو وہ گل"۔ محبوب کا کھلنا کیا معنی دیتاہے۔کہیں یہ بازاری زبان تو نہیں بن جاتی۔
"بکھرے تو چاندنی"۔بکھرنا کا لغوی اور احساساتی معنی میں آج تک فرق نہیں آیا ہے۔
بکھرنا =
ٹکڑے ٹکڑے ہونا،
پاش پاش ہونا،
ریزہ ریزہ ہونا وغیرہ۔
محبوب بکھر کر چاندنی بننا اور پھر اس پر یہ دعوا کہ یہ تعریف ہے۔میری سمجھ کی سمجھ سے بھی بعید ہے۔
آخری دو اشعار قدرے ٹھیک ہی ہیں۔
یہ باتیں جب ابھر کر آئیں تو ہمیں دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ اپنی خامیاں پہلے تسلیم کرنی چاہیں پھر ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
میری رائے فقط میری رائے ہے حرف آخر نہیں۔مگر کہتے ہیں نا "جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے"۔عام قاری کو شاعری پڑھتے وقت انبساط بھی ملے اور بصیرت بھی۔اس میں پیچدہ پیکر تراشی عموماً مانع آتی ہے۔
جب مجھے بحیثیت شاعر اپنی تخلیق صفحہ قرطاس پر لانی ہو تو مجھے چاہیے کہ۔۔
میری تخلیق پُر ترتیب اور پُر ترکیب ہو۔
وہ شدید جزبہ و احساس کی عکاس ہو۔
میرے پاس ایک جزبہ اور جنون ہو۔
میں ادب کے مزاج اور جمالیات سے بخوبی مانوس ہوں۔
مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ فن پارہ میرے ہاتھوں سے نکل کر ان لوگوں کے پاس آ پہنچتاہےجو۔
قوت تجزیہ اور قوت تحلیل کی کمائی رکھتے ہیں۔
جو  علم اور ادراک کی کسوٹی رکھتے ہیں ۔
علم اور فرزانگی جن کا شیوہ ہوتا ہے۔
جو روایات ادب سامنے رکھ کر تول تول کر بات کرتے ہیں۔
شاعر کو میری طرف سے بہت بہت داد ۔
"شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات"
شکریہ سبھی اساتذہ کا۔

Monday, April 3, 2017

میری غزل"دھوپ میں تپتی بہاروں کا سفر بھی دیکھیے" پر تبصرہ۔

اس محفل تنقید میں جو مقتدر شعراء شامل ہوئے وہ ہیں۔

ڈاکٹر رفیق مسعودی، شبیر احمد شبیر، نثار گلزار، رشید جوہر، ڈاکٹر شوکت شفا شیدا، حسن اظہر، ریاض انزنو، یوسف جہانگیر، حلیم سوپوری، نگہت صاحبہ اور الیاس آزاد۔

غزل آخر میں دی گئی ہے۔پہلے اسے ہی پڑھا جائے۔

نقادوں کی نظر میں غزل کیسی ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔

شوکت شفا شیدا:
بہت اچھی کوشش. فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن.  باوزن کلام ہے . البتہ معنوی اعتبار سے شعر نمبر ۲ اور ۳ کی شاید نظر ثانی کرنی پڑے گی. دو مصروں میں کنٹراسٹ کی تشنگی محسوس ہوتی ہے مجھے. کنٹراسٹ سے یہ اشعار کنٹراسٹ پیدا کرنے سے زیادہ نکھر جاتے.

نگہت صاحبہ۔
میری رائے میں منتشِر اور حشر صحیح قافیے نہیں ہیں،
راہ گذر کے بجائے  رہ گذر بہتر رہےگا

  سفر کا رکن. ف عل ہے. Fa'al   اور حشر کا فع ل fi'elاچھی غزل هے...... منتشر. کا قافیه میرے خیال میں ٹھیک نهیں
اب وہ آشوبِ دہر کا شیرِ نر بھی چاہیے

اس مصرعے میں لفظ دہر غلط تلفظ میں باندھا گیا ہے چنانچہ خارج از وزن ہوگیا ہے
شوکت شفا شیدا:
دہر . کا رکن. د ہر ( ف عل ) بھی ہے اور دہ ر ( فع ل) بھی ہے. دونوں صورتوں میں باندھنا جائز ہے

شبیر احمد شبیر:
نگہت صاحبہ جی، یہان منتشر حرف    ش    پر زبر دیکر مفعول ھے  یہ گرامری یعنی نحوی قاعدے کی رو سے باب افتعال کے ثلاثی مزید فیہ صیغہ ھے جسکا فاعل اور مفعول بنانے کا الگ ضابطہ ھے۔دہر . کا رکن. د ہر ( ف عل ) بھی ہے اور دہ ر ( فع ل) بھی ہے. دونوں صورتوں میں باندھنا جائز ہے۔ نگہت صاحبہ جی یہان منتشر حرف    ش    پر زبر دیکر مفعول ھے  یہ گرامری یعنی نحوی قاعدے کی رو سے باب افتعال کے ثلاثی مزید فیہ صیغہ ھے جسکا فاعل اور مفعول بنانے کا الگ ضابطہ ھے

میرے خیال مین دھرکا  ھ  ساکن ہی رھےگا

دھرمین اسم محمدسےاجالاکردے     اقبال

ترکیبی صورت میں اعراب نہین بدلتین۔ واہ طارق صآب
ڈاکٹرصاحب منتشٙر   ش    کی زبرسےھے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا ہے
فیض
کیا منتشر کا ش مفتوح ہے

مطلع مین دھوپ اورتپتی معنوی لحاظ سے یکسان ہین  یعنی تپتی بہارسےخدبخودچلچلاتی دھوپ کاتصورابھرتاھے

ریاض انزنو۔
طارق صاحب کی غزل میں بیانات اور موضوعات کی وہی پرانی روش قائم ہے جن کو لیکر دیوانوں کے دیوان بھرے پڑے ہیں مگر کمال فن یہی ہے کہ طارق کے طرز بیان نے ان کو نئ جہت بخشی ہے اگر جی پہلے پہلے یہ احساس ہوتا ہے کہ مصرعوں کا باہمی تعلق کمزور ہے مگر  غور کرنے کے بعد معنی مفہوم اور باہمی تعلق کے نت نئے دریچے کھلتے نظر آتے ہیں البتہ مطلع اس بھی جاندار ہونے کی توقع پیدا ہوتی ہے جس سے غزل کی جان میں اور جان آنے کا امکان موجود ہے ۔ اس کی بناوٹ اور ترتیب ایک ذی علم ذہن کی عکاسی ہے کیونکہ شکوے رنج اور بے ثباتی کا تذکرہ بھی بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے
میں نہ ہی نقاد ہوں اور نہ ہی کوئی تجزیہ نگار االبتہ شاید اچھے کو اچھا کہنے اور سمجھنے کی توفیق ہے

شبیر احمد شبیر:  اقبال نے حقیقت منتظر    ظ   کی زبر سے مفعولی صورت مین برتاھے

دوسراشعردولخت دکھائی دیتاھے

شوکت شفا شیدا:
منتظر میں  ت دونوں  صورتوں میں( کسرہ اور فتح کے ساتھ) اردو میں لائی گئی ہے. کیا اردو  شاعری میں ایسی کوئی مثال ہے جہاں  منتشر کا ش مفتعوع استعمال کیا گیا ہے. دوسری بات کیا اس شعر میں معنوی لحاظ سے  کسرہ ہی موضون نہیں بے? گو کہ قافیہ میں نقص پیدا ہوتا ہے
شوکت شفا شیدا: شبیر صآب

شبیر احمد شبیر:
تیسرےشعرکے قافیہ   حشر مین شاید   ش    ساکن ھے

شوکت شفا شیدا:
کچھ لفظ ایسی ہیں جن کا رکن. فع ل(Fa'al) بھی ہے اور ف عل( fi'el) بھی. مثلا.  مہر, کہر, دہر ,سحر.

شبیر احمد شبیر:
کبھی اے حقیقت منتظر  یہاں حقیقت انتظار نہین کرتی بلکہ حقیقت کا انتظارکیاجاتاھے   منتظر     ظ   کی کسرہ سے انتظارکرنے والا اور ظ   کی نصب یعنی فتح سے انتیار کیاھوا  پس اقبال نے مفعولی صیغہ برتاھے نہین تو معنویت لغوھوجائےگی ڈاکٹرصاحب۔

شوکت شفا شیدا:
بحر, شہر, قہر, نحر , نہر. فع ل ( Fi'il) کے وزن پہ لیے جاتے ہیں۔

شبیر احمد شبیر: میرےخیال مین نہین۔

شوکت شفا شیدا: مجھے  منتظر لفظ پہ کوئی اعتراض نہیں.
شبیر احمد شبیر: صرف بحر

شوکت شفا شیدا: دوبارہ دیکھے جناب.

شبیر احمد شبیر: وہی تومیرا بھی مطلب ھے کہ شھر   کا     ھ   ساکن ھے۔
شوکت شفا شیدا: دوبارہ دیکھے جناب.    بحر, شہر, قہر, نحر , نہر. فع ل ( Fi'il) کے وزن پہ لیے جاتے ہیں

شبیر احمد شبیر: اگر بحر مین کاٹ کے ھو تو الگ بات ھے
۔ فعل   ع پرجزم کےساتھ
شوکت شفا شیدا: بلکل. فع ل اسی لیے لکھا
۔ سیاہی پھیرتی جاتی ہیں راتیں بحرو بر پر                                  انہیں تاریکیوں سے مجھ کو بھی حصہ ملے گا

شبیر احمد شبیر: صحیح ھے ڈاکٹرصاحب
طارق صاحب کی غزل کے ایک دواشعارمطبوع کے بجای مصنوع نامی اصطلاح کے دائرے مین آتےہین
  یہ دواصطلاحات ابن رشیق کی العمدةفی الشعر وآدابہ کتاب سےماخوذہیں۔

جوہر رشید۔
دیکھ لینا ہے اگرتو دیکھئے سبجو بستیاں۔۔۔۔۔۔۔اور خلوت میں پڑیاک رہگزر بھی دیکھئے ۔۔۔& حسب حال ۔طارق صاحب کی یہ تخلیق قابل داد و تحسین ہے ۔غزل کا ہر  شعر  سچ پوچھو جیسے ڈجٹل سسٹم سے تولا گیا ہے غزل کا ہر شعر پر اثر اور حسب حال ہے ۔ہاں جہانتک فاعلاتن فاعلاتن فاعلات کی آنکھ سے بھانپنے کا تعلق ہے میری لا علمی کے صدقے پھر غالب بھی مغلوب اور درد بھی بے درد ثابت ہو سکتا ہے ۔اس سے آگے اساتزہ کی کیا راے ہوگی ۔۔واللہ  عالم بالثواب۔
یوسف جہانگیر۔
اگر اقبال صاحب کا شعر معنوی اہمیت کھوتا ہے تو طارق صاحب کے شعر کو منتشر بفتح ش کی کیا ضرورت ہے۔

شبیر احمد شبیر: جہانگیر صاحب میرا یہ مطلب نہین ھے بلکہ مراد یہ ھے کہ اقبال نے لفظ منتظرکو مفعولی صورت دیکر صحیح معنی مین برتاھے۔

شبیر احمد شبیر: جوھرصاب،          بقدر شوخ نہین ظرف تنگنائ غزل               کچھ اور چاھئےوسعت میرےبیان کیلئے

حسن اظہر۔
چونکہ طارق صاحب نےبہت  پہلے ہی اعتراف کیا ہے کہ یہ ان کی بہت پہلے کی لکھی ہوئی غزلیں ہیں جو آج ہمارے سامنے ہیں۔۔۔اب اگر فنی اعتبار سے مذکورہ غزل میں کوئی کمی پیشی ہے تو اس کو صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے ۔۔۔جناب طارق صاحب میں تخلیقی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں جن کو بروئے کار لاکر آگے کا تخلیقی سفر شاندار اور جاندار بنایا جاسکتا ہے۔۔۔
مذکورہ غزل میں شاعر کے تخیلی پرواز کی اذان کا بھر پور اندازہ ہوتا ہے۔۔۔الفاظ اپنے فطری صورت میں ڈھلتے نظر آرہے ہیں۔۔۔یہ اشعار میں حسن کی تحسین کار نمایاں طور پر واضح ہیں۔۔۔
بہرحال کسی پرائی زبان میں ہم تب طبع آزمائی کریں جب اس پر حد سے زیادہ دسترس حاصل ہوچکی ہو ورنہ تصحیح سے شعر کی وہ ہیئت اور صورت باقی نہیں رہتی جو شاعر کے ذہن میں کبھی گھر کر چکی ہوتی ہے۔۔۔
میری طرف سے غزل کے تخلیق کار کو ڈھیر ساری داد۔ ان اشعار میں حسن کی تحسین کار نمایاں طور پر واضح ہے۔

ڈاکٹر رفیق مسعودی۔
بقدر "شوخ" نہیں بقدر "شوق" درست ہے.شائد۔

شبیر احمد شبیر: شاید شوخی کا تخیل مراد ھےجوھرصاحب اور رفیق صاحب۔

شبیر احمد شبیر:
بہت عرصے کا دیکھاشعرھے غلط فہمی بھی ممکن ھے

نثار گلزار:
طارق صاحب کی غزل کا انداز خوبصورت ہے اچھی شاعری کی پہچان یہی ہے کہ وہ قاری کو خیال و معنویت کے اسرار خانوں کی سیر کرائے ۔ ۔ طارق الفاظ میں  معنویت کی پرتوں کو ماہرانہ انداز میں ڈھک لیتا ہے مضمون وہی پرانا سہی مگر سوچنے اور جھیلنے کا انداز اپنے زمانے کا ہے۔

شبیر احمد شبیر
اردوشاعری کی ڈگر پرچلنےکی ابتداکرکےطارق صاحب نے اپنی بے پناہ پوشیدہ صلاحیت کوآشکارا کرنے کی ٹھانی ھے مجھےامیدھےکہ وہ مستقبل قریب مین اپنی فنکارانہ شاعری کا لوہامنوائین گے اللہ انکے قلم کو زوراورخاصااثربخشے۔

ڈاکٹر رفیق مسعودی
طارق ایک اچھے اور ہونہار نوجوان اور حوصلہ مند شخص ہے..نہیں تو ابھی تک گھبرا کے پٹارا بند کر دیا ہوتا..ان کا ایک منفرد لھجہ ہے الگ سوچ اور پنھاں تخلیقی تخم بھی...ان.کا ادبی مستقبل روشن اور خوبصورت ہے...ان.میں حکیم منظور کا اسلوب چپکے سے آگیا ہے...انکی خواہش ہے کہ وہ انکی کتابوں کا مطعالہ کرہں..انشاءاللہ میں اگلی ملاقات پر انکو انکی ساری کتابیں قرضِ حسنہ کے طور دوںگا...
طارق اگر کشمیری کے حوالے سے بھی طبع آزمائ کرتے تو سونے پہ سھاگہ ہو جاتا...اس تخلیق کے حولے سے اساتزہ نے کافی لکھا اور طارق کی راھنمائ اور بیٹھ بھی تھپکی...مجھے زاتی طور طارق کا یہ اسلوب و اظھار اچھا لگا.شعروں میں کہیں کہیں تسلسل ڑگمگا گیا ہے وہ وقت اور تجربے کی بات ہے انکی اگلی تخلیق ٌمیرا دعویٰ ہی نہیں یقین ہے اس سے بھتر ہوگی اور نکھر کر ایے گی...اوزان و ادا پر انکا کنٹرول ٌخیال کی بر جستگی اور منزل کا تعیّن طارق احمد طارق کو طارق بناتا ہے...
میری تھنییت اور مبارِک..اور یہ💐💐👏👏🌹🌹

نثار گلزار:
ڈاکٹر صاحب ،آپکی دیر بعد لب کشائ بہت سے اندیشوں کو جنم دیتی ہے آپ اس پیج کی روح ہیں لیکن چپ رہ کر خود اور ہم پر ظلم نہ کریں محترم۔

ڈاکٹر رفیق مسعودی۔
روح کو جسم کی بھی ضرورت ہے محترم..کھبی کھبی جسم اکڑتا ہے سکڑتاہے جکڑتا ہے..مگر کوششش کرکے واپسی کی بھی کوشش کرتا ہے۔

تشکر بذریعہ شاعر
طارق احمد طارق۔
میں تمام احباب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے کھُلے دل کے ساتھ میری غزل پر اپنے تنقیدی زاویے وا کیے۔
اگر شاعری پر اسی طرح تنقیدی تبصرے ہوتے رہیں تو میرا ایمان ہے کہ ہم مل جُل کر وہ ادب تخلیق کرسکتے ہیں جو ایک دن 'ادب عالیہ' میں شمار ہوگا۔
شاعری پر تنقیدی تبصرے کروانے سے نوآموز شاعروں کو اپنی شاعری کی نوک پلک سنوارنے میں مدد ملتی ہے۔
ساتھ ہی میں  ایک تنقیدی مزاج بھی بننا شروع ہوتا ہے۔
اللہ گواہ ہے کہ میری غزل پر جب آپ بات کرتے تھے تو مجھے خود پر بہت پیار آتا تھا۔آپ میرے استعمال کیے ہوئے "پیکروں" کا تلفظ درست کرتے تھے تو مجھے مزہ آتا تھا۔ کشمیریوں کی اردو اسی لیے اردو غلیظ کے زمرے میں شمار ہوتی ہے کہ ہم تلفظ پر اپنی توجہ نہیں دیتے آئے ہیں۔

شاعری تلفظ سکھاتی ہے۔تنقید شاعری سکھاتی ہے۔لہذا دونوں کا چولئ دامن کا ساتھ ہے۔

میں آپ سب کا انتہائی مشکور ہوں۔ڈاکٹر رفیق مسعودی نے اس پیج پر جتنا میرا حوصلہ بڑھایا اُس کےلیے میں ان کا بے حد ممنون ہوں۔
شبیر صاحب جیسے مقتدر نقاد اگر میری شاعری کو جاندار گردانتے ہیں تو مجھے  ایک تحریک ملتی ہے۔

نثار گلزار صاحب کی ادبی مورچہ بندی   ،ریاض انزنو کی پُردم تحریریں، حسن اظہر کی فنی باریکیاں، شوکت شفا کی سلجھی ہوئی باتیں،جوہر صاحب جیسے پُرگو شاعر کی شاباشی مجھے یہ اندیہ دیتی ہے کہ
"طارق ،تم اکیلے کہاں ہو۔تیرے لیے یہ اساتذہ صف باندھے بیٹھے ہیں"
اُن احباب سے، جو لکھنے میں کنجوسی کرتے ہیں، میری یہ گزارش ہے کہ اپنے قلم کو سوچ کی آخری حد سے بھی آگے لے جانے کی کوشش تو کیاکرو پھر دیکھو آپ کہاں پہنچ پائیںگے۔
نگہت صاحبہ نے بھی میرے کلام پر تھوڈی چُپی توڈی،بہت اچھا لگا۔تھوڈا اور گہرائی میں جاکر بات کرتی بہتر رہتا۔حلیم صاحب بھی اچھا زاویہ رکھتے ہیں۔
اگر ہم میں دم ہے تو دکھانا پڑے گا نا۔
شاید میں چھوٹا ہوکر بڑا بھائی بن گیا معذرت خواہ ہوں۔الیاس آزاد صاحب آپ کا بھی شکریہ۔
وسلم۔
شبیر احمد شبیر۔
رفیق صا حب آپ بجا فرمارہے ہیں۔بقول  اظہر صاحب یہ طارق صاحب کی پرانی تخلیق ہے ۔دیکھا جاے تو غزل اچھی ہے طارق صاحب کیلے ایک مشورہ ضرور دونگا کہ وہ اردو غزل گوئ سے منہ نہ موڑیں بلکہ جب کبھی بھی موقعہ ملے اپنا ریاض جاری رکھیں ۔الله  کرے زور قلم اور زیادہ۔

ڈاکٹر رفیق مسعودی۔
اظھر کے لیے پرانی ہوگی ھمارے لیے تازہ بہ تازہ اور نو بہ نو ہے...ہاں تاریخِ پیدائشِ تخلیق رقم.کی.گئ ہوتی تو ہم نا بلد بھی نوٹس کرتے.

رشید جوہر۔
1997 سے اب تک کافی وقت ہوتا ہے..لہذا فن اور ہنر میں وسعت اور پختگی لازم ہے....مبارک. 20 سال پرانی تخلیق ۔اب کا کیا کمال ہوگا ۔طارق صاحب ۔ہم تو مان گئے ۔اپنے فن کی آبیاری کیجئے ضرور نکھر جایگا ۔مجھے آپکے فن غزل گوئ پر ناز ہے ۔جیتے رہو خوش رہو اور آباد رہو.

Sunday, April 2, 2017

English poem "The Bath Of Flood" and its analysis

Poem

THE BATH OF FLOOD
By: Mir Rooshan Khayal

Download this article in PDF format. Click here

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------

   Bewildering with every rain drop
The wick of the lamp in the dark
Still was disclosing that
Not only his things of retinue
Have been given to the Wind
But the ascending waters have
Crooked his ever erected head
Not only drenched his exalted home
But also his lofty estacy.
  He had chaned his knees
He was praying to God
Like the previous supplications
This was not an alloy
Not an alloy of businesses trick
And an act of pretence.
It was a cry of man in want
Reflecting the every glare of candour.
The water although was turbid
Had washed his self conciet .
The light from whip although foggy
Had enlightened him
And Vanished his folly.
..........................

Analysis by Tariq Ahmad Tariq

The poem has been planted in a sad tone.
The word bewildering exposes the scenario before hand.The poem doen't have any punctuation marks that creates different shades distint from one another.
"Bewildering" and "disclosing" are human traits given to the wick of lamp ,and thus personification immersed in visual imagery is magnified.
"Not only his things of retinue have been given to the wind"
The statement seems to be losely connected to the thread.Who is the invisible agent ,is not clear. The effect of wind is not created.
"Crooked his ever erected head"
Is forcibly made to connote that before these floods, the man would never demonstrate his humble nature.
I also fail to figure out the connotations of "to change ones knees".
"The water though was turbid has washed his self conciet" .Here the conjuction 'though' is not followed with a powerful contrast. Turbid water has utterly failed as a metaphor.
The poet has tried his level to create a telling effect with a resounding imagery of flood but he should have focused a little more on the word painting.
Over all good effort.

نظم"آش" شاعر.بشیر دلبر .

شاعر. بشیر دلبر
تبصر نگار. طارق احمد طارقؔ

آش
                  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سکہ صحراوچین
گریشمہ ژنجن منز
تھامہ گومت زن
اکھ کاروانا
ہینہ آمت سرابس منز
اکھ اکھ ارماں ویگلیومت زن
نفسی نفسی
بارو ہر سو
آش نہ باقی
گاش نہ باقی
پگہ ہس الووند
بس اکھ پژھ

شہلی کلین ہنز
..............‌....................................................................

تبصر. از قلم طارق احمد طارقؔ

  نظم نگارن چھ اکھ جان کوشش کرمژ.

کیمہ تام ہارمتی کاروانچی ناوومیدی تہ نامرادی باونچی.
پوز نطم لیکھنس منز چھس ہنا جلد بازی کام ہیژمژ.
سکہ صحراو  بدل چلہ ہے صحراوی یوت تہ
"تھامہ گمت زن فقرس منز ہرگہ
زن
استعمال کرنہ بجاے تھامہ گمت یوتوی آسہے گمت یہ رٹہے
علامتک
رنگ،مگر اتھ تشبیہ ہند رنگ کھالتھ چھ معنی محدود کرنہ آمت.

"ہنہ آمت سرابس منز" چھنہ کانہہ اضافی نقش تھران بلکہ چھ بیجا اضافت باسان.

آش نہ باقی پتہ
"گاش نہ باقی"
چھ،میہ نزدیک، بالکل مہمل تُک بندی.

آش باقی نہ روزنہ پتہ کیمچی پژھ.

صحراوس منز نظمہ ہند پلاٹ تعمیر کرتھ
"شہلی کلین ہنز "
آش چھنہ منطقچن ہیرن کھستھ ہیکان.
نظم نگارس پزہ نظم لیکھنہ کس فنس پیٹھ ہنا بیہ ظُن دین.